کراچی: سندھ کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بلوچستان سے منسلک سرحد کی نگرانی کے لیے خصوصی فورس تعینات کی جائے۔

سیکیورٹی اسٹیبلمشنٹ نے یہ تجویز سندھ میں ہونے والے حالیہ دھماکوں میں ملوث ملزمان کے ممکنہ طور پر بلوچستان سے داخل ہونے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد دی۔

سیہون میں درگاہ قلندر لعل شہباز میں خودکش دھماکے میں 85 سے زائد افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کے بعد سیکیورٹی عہدیداروں اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت دیگر حکام کے درمیان ہونے والی متعدد ملاقاتوں میں یہ تجویز زیر بحث آئی۔

حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ہونے والی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ان حملوں میں ملوث ملزمان، سہولت کار اور منصوبہ ساز ہمسایہ صوبے سے داخل ہوئے تھے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا 'اسی طرح کی ایک تجویز گزشتہ برس اکتوبر میں بھی دی گئی تھی، جب ستمبر 2015 میں شکارپور میں ہونے والے 2 حملوں میں ملوث ملزمان سے متعلق بھی یہ کہا گیا تھا کہ وہ بلوچستان سے آئے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: 'سندھ کی تمام عبادت گاہوں کے سیکیورٹی آڈٹ کا حکم'

مذکورہ عہدیدار کے مطابق اس معاملے کو سندھ حکومت نے بلوچستان کے حکام کے سامنے اٹھایا تھا، جس کے بعد پہلا قدم اٹھاتے ہوئے سندھ -بلوچستان سرحد کے اہم مقامات پر پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے، جبکہ سندھ حکومت نے سرحد پر اپنی حدود میں 400 پولیس اہلکار تعینات کیے تھے۔

ملک بھر میں دہشت گرد حملوں کی لہر میں اس وقت تیزی آئی جب درگاہ قلندر لعل شہباز میں ایک خودکش دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں 85 سے زائد افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہوئے۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا، جو ایک ہفتے کے دوران ملک میں 10 واں حملہ تھا۔

حالیہ حملوں کی لہر 12 فروری کو شروع ہوئی، جب کراچی میں نجی چینل سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی وین پر حملے کے نتیجے میں ایک کیمرہ مین جاں بحق ہوگیا تھا۔

اس حملے کے اگلے ہی روز لاہورمیں ہونے والے خودکش دھماکے میں سینیئر پولیس افسران سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے، اسی دن کوئٹہ میں ناکارہ بناتے ہوئے بم پھٹنے کی وجہ سے بم ڈسپوزل اسکواڈ کا کمانڈر اور پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے، جب کہ جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگ سے گاڑی ٹکرانے کے باعث 2 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

بدھ 15 فروری کو 4 خود کش حملہ آوروں نے ججز اور سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے پشاور، مہمند ایجنسی اور چارسدہ میں خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑادیا۔

اگلے ہی روز (16 فروری کو) بلوچستان کے علاقے آواران میں 3 سیکیورٹی اہلکار ایک بم حملے میں ہلاک ہوئے، جب کہ اسی دن خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں پولیس کی گاڑی پر حملے کے دوران 4 اہلکار اور عام شہری ہلاک ہوا۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کی تازہ لہر، ملک بھر میں کریک ڈاؤن

مذکورہ حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا، 'ہمیں لعل شہباز قلند کے مزار پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کرتے وقت ان سب دھماکوں اور واقعات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'ان تمام واقعات کی علیحدہ تحقیقات کے علاوہ صوبوں میں سیکیورٹی کے مؤثر اقدامات کرنا بھی نہایت ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دونوں صوبوں کی سرحدی حدود کی کڑی نگرانی کرنے کے لیے وہاں خصوصی فورس تعینات کرنے کی تجویز دی ہے'۔

اگرچہ متعلقہ حکام اس تجویز سے متعلق تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، تاہم مذکورہ عہدیدار کو یقین ہے کہ سندھ حکومت اس تجویز کو حتمی شکل دینے کے لیے جلد ہی اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں کے ساتھ مل بیٹھے گی۔


یہ خبر 20 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں