لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

13 فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد پاکستان کی مستقل نمائندہ نے اپنے پیش بین بیان میں اس بات پر زور ڈالا تھا کہ "پاکستان کو آج جس دہشتگردی کا سامنا ہے اسے بیرونی حمایت حاصل ہے۔" اور پھر تین دن کے دوران لاہور، پشاور اور سیہون میں لگاتار دہشتگردی کے حملے بھی ہوئے۔

سیہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کے فوراً بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا کہ: "دہشتگردی کی حالیہ کارروائیاں دشمن طاقتوں اور افغانستان میں موجود پناہ گاہوں سے جاری ہونے والی ہدایات پر کی جا رہی ہیں۔ ہم دفاع کریں گے اور اپنا رد عمل بھی دیں گے۔" آرمی چیف نے خود بھی یہ اعلان کیا کہ: "قوم کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا ۔۔۔ بلاتاخیر۔ کسی کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔"

چوں کہ دہشتگرد اکثر لاپتہ یا پوشیدہ رہتے ہیں اس لیے دہشتگردی کا انتقام لینا یا اسے ختم کرنا ہمیشہ ایک آسان کام نہیں ہوتا۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملوں کی صورتحال میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہم دہشتگردوں کو جانتے ہیں۔ ان حملوں کی ذمہ داری داعش اور تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں سے ملحقہ افغانستان میں پناہ گاہوں میں رہتے ہیں۔ ہم ان حملوں کی سرپرستی کرنے والی ‘مخالف قوتوں’ کو بھی جانتے ہیں: افغانستان اور ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں۔

انتقام لینا ایک سنجیدہ کام ہے۔ ہمیں دستیاب آپشنز اور ان کے اثرات و ممکنہ نتائج کا محتتاط انداز لگاتے ہوئے انتقامی کارروائیاں کرنی ہوں گی۔

پہلے قدم کے طور پر طورخم بارڈر کراسنگ بند کر دی گئی ہے۔ اس طرح افغان حکومت کو معاشی طور پر سزا ملے گی۔ مگر اس طرح نہ تو دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کو کوئی براہ راست سزا مل سکے گی اور نہ ہی ان کی سرحد پار حرکت کو قابو کیا جا سکے گا۔

پڑھیے: ٹوٹی کمر کا فسانہ

اس کے لیے سرحد پر باڑ، چیک پوسٹوں اور سرحد پار دراندازی کو مانیٹر کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے سرحد کو ’سیل‘ کرنے کی منصوبہ بندی پر مکمل عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس منصوبہ بندی پر انتہائی قابلیت کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے لیے اچھی خاصی رقم مختص کرنی ہوگی۔

لاکھوں افغان مہاجرین کی تیزی کے ساتھ وطن واپسی بھی ’دفاعی‘ اقدامات کا ایک حصہ ہے۔ کئی دہشتگرد خود کو افغان مہاجر ظاہر کر کے چھپ رہے ہیں۔ وطن واپسی کا سلسلہ اقوام متحدہ کی درخواستوں اور افغان مہاجرین میں اپنا ’مفاد’ رکھنے والی چند پاکستانی ایجنسیوں کی وجہ سے سست روی کا شکار ہو چکا ہے۔ ان کی مزاحمت پر سبقت حاصل کرنی ہوگی۔ عسکریت پسند تحاریک اور منشیات اور جرائم پیشہ مافیا اور پاکستان مخالف افغان رہنماؤں کے رشتہ داروں سے منسلک لوگوں یا گروہوں کو بلاتاخیر نکال دینا چاہیے۔

جنرل ہیڈ کوارٹرز نے اسلام آباد میں موجود افغان نمائندگان سے افغانستان کی پناہ گاہوں میں بیٹھے 76 دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے یا پھر انہیں ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک براہ راست رد عمل کی شروعات کی ہے۔

کابل سے کیے جانے والے مطالبے کو افغانستان میں موجود مخلوط افواج کے امریکی کمانڈر تک بھی پہنچایا گیا، کیوں کہ وہ افغان حکومت اور بالخصوص اس افغان انٹیلجنس ایجنسی پر غالب اثر رسوخ رکھتے ہیں، جو کہ پاکستان مخالف دہشتگردوں کی مرکزی مقامی سرپرست ہے۔

افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر امریکی مطالبات کو اس وقت تک زیر غور نہ لایا جائے جب تک کہ امریکا کابل میں اپنے کلائنٹس کو پاکستان کے خلاف مصروفِ عمل تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور نہیں کرلیتا۔

سرتاج عزیز کے افغان قومی سلامتی کے مشیر کو ٹیلے فون پر دہشتگردی کے ’مشترکہ خطرے’ کے خلاف تعاون پر زور ڈالنے سے شاید ہی کوئی نتیجہ برآمد ہو بلکہ اس طرح افغانیوں کو جی ایچ کیو کی جانب سے دیے جانے والے سخت پیغام کا اثر ماند پڑ سکتا ہے۔

پاکستان کے کابل کے ساتھ انسداد دہشتگردی میں تعاون اور افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے اتحاد کو افغان زمین سے کارروائی کرنے والے پاکستان مخالف دہشتگردوں کے خلاف افغانستان کی کارروائی سے مشروط کر دینا چاہیے۔

پڑھیے: بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضاء کو بھی سنبھالنا ہوگا

لاہور مال روڈ سانحے کے بعد دفتر خارجہ کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے بعد خبروں کے مطابق اسلام آباد میں موجود افغان ناظم الامور نے کہا کہ چوں کہ افغان سرزمین کا ایک بڑا حصہ ان کے اختیار سے باہر ہے لہٰذا اس کا ذمہ دار کابل حکام کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

اگر واقعی ایسی بات ہے اور افغان نیشنل آرمی اور امریکی سربراہی میں اتحادی افواج تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے ’محفوظ ٹھکانوں‘ کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتیں تو پھر پاکستان کی افواج کو سرحد پار جانے اور ان کا خاتمہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ایسے زیادہ تر محفوظ ٹھکانے پاک افغان سرحد کی ضربی یا اسٹرائکنگ فاصلے پر واقع ہیں۔

اگر کابل اور امریکا کارروائی کرنے یا پھر پاکستانی آپریشن میں سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو پاکستان کے پاس شاید ان محفوظ ٹھکانوں اور وہاں چھپے بیٹھے دہشتگردوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو۔ اگر بیرونی زمین پر مقیم دہشتگردوں کی جانب سے حملہ ہوا ہوتا تو ایران یا ترکی جیسے دیگر ممالک وہاں جوابی کارروائی کرنے میں ہچکہچاہٹ کا شکار نہ ہوتے۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنی کمزور حالت کے پیش نظر ہندوستان کے لیے یہی وجہ لائن آف کنٹرول کے پار ’اسٹرائیکس’ کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کر پانا ممکن نہیں۔

پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے سرپرستوں — افغان اور ہندوستانی انٹیلجنس ایجنسیوں — کو سزا سے بچنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان اپنے پاس موجود ثبوتوں کے بل بوتے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ تنظیموں سے دونوں ایجنسیوں کو دہشتگردی کی سرپرست قرار دینے کے لیے رجوع کر سکتی ہے۔

ورنہ کم از کم پاکستان کو چاہیے کہ وہ داعش سے منسلک تحریک طالبان پاکستان اور اس کے ساتھیوں، اس کے ساتھ ساتھ بلوچ عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کرنے میں ان ایجنسیوں کے کردار پر ایک غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرے۔ پاکستانی ایجنسیوں کو اپنے ان ’ذرائع’ کو منظر عام پر لانے میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے جو افغان اور ہندوستانی ایجنسیوں کی جانب سے دہشتگردی کی سرپرستی کو ثابت کرتے ہیں۔

نہ ہی ہندوستان کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ افغانستان کے ذریعے مغربی سرحد سے کھلے عام پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرے۔ پاکستان کو کشمیر میں جاری مقامی جدوجہدِ آزادی کی اخلاقی اور مادی مدد بڑھانے کے آپشن کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس جدوجہد کو دہشتگردی کے مساوی نہیں ٹھہرایا جاسکتا؛ خودارادیت اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے جدوجہد ایک جائز جدوجہد ہے۔ پاکستان کی جانب سے کشمیری جدوجہد کی حمایت اب سیاسی و اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک اسٹریٹجک مجبوری بھی ہے۔

پڑھیے: سہون کے بعد بھی ثابت قدم رہنا ہے

ہندوستان یا اس کے امریکی دوست اپنی دھمکیوں اور چکنی چپڑی باتوں سے پاکستان کو اپنے ذاتی مفادات، مقاصد اور سیکیورٹی کا تحفظ کرنے اور انہیں فروغ دینے سے روک نہیں سکتے۔ ہندوستان کے ساتھ باہمی امن — چاہے مغرب کی جانب سے یا پھر مشرق کی جانب سے — پر صرف تب ہی مذاکرات ممکن ہو سکتے اگر پاکستان ہمت اور عزم کا مظاہرہ کرے۔

امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں۔ مگر پابندیوں سے ملنے والی سزاؤں کا پاکستان کو پہلے سے ہی سامنا ہے، جیسے امریکی فوج کی معاونت سے روک دینا اور مقبول عام کولیشن سپورٹ فنڈ کا اجرا بند کر دینا۔

جب تک پاکستان حساب کتاب میں تبدیلی نہیں کر لیتا تب تک امریکی فراخ دلی بحال کرنے کی قیمت جنوبی ایشیاء میں ہندوستانی-امریکی ایجنڈا کی قبولیت رہے گی۔

ماضی میں پاکستان کو جب بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان نے اپنے اسٹریٹجک مقاصد، جیسے جوہری اور میزائل صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے لیے قومی بنیادوں پر خود کو متحرک کیا۔

آج یہی صلاحیتیں بیرونی دھمکیوں اور جارحیت کے خلاف ہمارا سب سے بڑا دفاع ہیں۔ آج قوم کو درپیش اسٹریٹجک چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کے سربراہان اور اس کے عوام کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔

یہ مضمون 19 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں