بنگلہ دیش: ایک اور اپوزیشن رہنما کو سزائے موت

شائع October 1, 2013

بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قانون ساز صلاح الدین چوہدری۔ اے ایف پی فوٹو۔
بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قانون ساز صلاح الدین چوہدری۔ اے ایف پی فوٹو۔

 ڈھاکہ: بنگلہ دیش کے جنگی جرائم سے متعلق ایک ٹریبیونل نے اپوزیشن کے ایک سینئر رہنما کو موت کی سزا سنادی ہے جو کہ اپنی نوعیت کا ساتواں فیصلہ ہے۔

خیال رہے کہ یہ ٹریبیونل 1971ء میں پاکستان سے آزادی حاصل کرتے وقت ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قانون ساز صلاح الدین چوہدری کو آزادی کے وقت تشدد، ریپ اور  نسل کشی کا مرتکب پایا گیا۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے جنوری میں عام انتخابات سے قبل سیاسی بنیادوں پر ہورہے ہیں جبکہ اس درمیان پر تشدد واقعات میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

بنگلہ دیش کی فوج نے دارالحکومت ڈھاکہ اور چوہدری کے مقامی علاقے میں فیصلے سے قبل سیکورٹی فورسز کی نفری بڑھادی تھی۔

بنگلہ دیش میں اپوزیشن رہنماوؤں کو سزا سنانے کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے- اس سے قبل بھی متعدد لیڈران کو جنوری سے لے کر اب تک اسی قسم کے جنگی جرائم میں سزا سنائی گئی ہے۔

سنہ 1971 کی جنگ کا آغاز ہزاروں افراد کی 25 مارچ کی شب پاکستانی فوج نے بنگالیوں کے خلاف آپریشن سرچ نائٹ نامی مہم کے دوران ہزاروں افراد کی ہلاکت سے ہوا تھا-

جنگ کا اختتام 16 دسمبر کو اس وقت ہوا جب جب ہندوستان نے ملک پر قبضہ کر لیا اور پاکستانی فوج کو شکست دے دی-

ڈھاکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس تنازعہ میں تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو لاکھ خواتین کا ریپ ہوا- آزاد ذرایع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی-

جنگ کے اختتام پر نوے ہزار سے زائد پاکستانی فوجیوں، جن میں 195 افسران بھی شامل تھے جن پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام تھا، نے ہتھیار ڈالے تھے جنہیں ہندوستان نے جنگی قیدی بنا لیا تھا-

ان افراد کی رہائی، سنہ 1974 میں اس وقت ہوئی جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگی قیدیوں کے حوالے سے معاہدہ ہوا اور انھیں بنا کسی مقدمہ چلائے واپس پاکستان بھیج دیا گیا تھا-

بنگلہ دیش کی اسلامی پارٹیاں، جن میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے، پاکستان سے علیحدگی کی مخالف تھیں- اس کے کارکنوں نے پاکستان کی حمایت میں ملیشیا قائم کی تھی جو کہ بڑے پیمانے پر قتل عام، ریپ، جلاؤ گھیراؤ اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری میں ملوث تھی-

بنگلہ دیش کی آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان، جو کہ موجودہ وزیر اعظم، شیخ حسینہ کے والد تھے، نے ایسے تمام افراد کے خلاف جنگی جرائم میں گرفتاریوں اور مقدمات کے قیام کا حکم دیا تھا- انہوں نے اسی سلسلے میں جماعت اسلامی کے رہنما، غلام اعظم کی شہریت بھی پاکستان کی حمایت کرنے اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بناء پر منسوخ کر دی تھی-

رحمان کو اگست 1975 میں ایک فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا تھا- اس بغاوت کے دوران اسلامی عسکریت پسندوں نے اپنے گیارہ ہزار سے زائد حامیوں کو بھی آزاد کروا لیا تھا جن پر اس وقت تک جنگی جرائم میں مقدمات نہیں چلائے جا سکے تھے-

شیخ حسینہ نے سنہ 2010 میں ایک انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل قائم کیا تھا جو کہ ایک مقامی عدالت ہے- اس ٹربیونل کا مقصد جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلانا ہے جو کہ الیکشن کے دوران ان کی پارٹی کا ایک اہم وعدہ تھا-

دیگر جنگی ٹریبونلز کے برعکس، بنگلہ دیش کے اس ٹربیونل کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل نہیں اور نیو یارک کے انسانی حقوق کے ایک گروپ کے مطابق اس ٹربیونل میں بین الاقوامی معیار کا خیال نہیں رکھا گیا-

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2025
کارٹون : 25 دسمبر 2025