فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

 12 نومبر، 2012 کے روز سپریم کورٹ نے آئینی پٹیشن نمبر  23/2012  پر اپنا فیصلہ سنایا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کا تصنیف شدہ تاریخی فیصلہ حکم دیتا ہے کہ تقرریاں، برطرفیاں اور ترقیاں اصولوں کے مطابق ہوں اوراگر صوابدید اختیار کا استعمال کیا جائے تو شفاف انداز میں کیا جائے،عہدے کی معیاد ،تقرری او ر تبادلے اصولوں کے عین مطابق ہوں،سول ملازم کسی افسربالا کے غیر قانونی حکم کو نہ مانیں اور کسی بھی عہدیدار کی بحیثیت او ایس ڈی (افسر برائے خصوصی ذمہ داری) تقرری نہیں ہونی چاہئے حتٰی کہ کوئی ناگزیر وجہ نہ ہو۔

پٹیشن جمع کرنے والے کو دوہری شکایت تھی۔ پہلی یہ کہ سول سروس کی حیثیت کو ریاست کی ملازمت کے طور پر بحال کیا جائے نہ کہ حکومت کی۔ دوسری یہ کہ سیاسی دخل ااندازی کو روکنا چاہئے۔

فیصلے کے نوے پیرا میں فاضل جج نے سول سروس اور سیاسی انتظامیہ کو گورنمنٹ کی انتظامی شاخ کے دو بازو قرار دیا ہے۔

انتہائی احترام کے ساتھ عرض ہے کہ سیاستدان کی نظر میں ایسا نہیں ہے۔ اسکی عقل ودانش کے مطابق، وہ پالیسی سازی کی اعلیٰ ترین ذمہ داری پر مامور ہے اور سول ملازم اسکی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا ماتحتی کردار ادا کرنے پر۔منتظمین کا سیاسی رنگ میں رنگنا ایسی سوچ کا قدرتی نتیجہ ہے۔

پاکستان کو ایک پارلیمانی نظامِ حکومت کہا جاتا ہے جسکی تین شاخیں عدلیہ،مجلسِ قانون ساز اور انتظامیہ ہیں۔تیسری شاخ کی سربراہی منتظمِ اعلیٰ یعنی وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے ۔

سول سروس انکے براہ راست اختیار کے ماتحت کام کرتی ہے۔انکا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہوتا ہے جسے اقتدار میں آتے ہی اپنے منشور پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔وعدے پورے کرنے میں ناکامی کا مطلب جماعت کا زوال پذید ہونا ہوتا ہے۔سول سروس کی ذمہ داری عملی کارکردگی ،پالیسی سازی میں مدداور منصوبوں اور اقدامات پر عمل درآمد کرنا ہے۔

1947 میں انتظامیہ کاایک نظام پاکستان کو برطانیہ سے ورثہ میں حاصل ہوا۔سابقہ انڈین سول سروس کے آہنی ڈھانچے سے ماخوذ اس ادارے کو غیر سیاسی ،موثر اور میرٹ پسند مانا جاتا تھا۔

بدقسمتی سے سول سروس نے جنرل ایوب (1958 تا 69)، جنرل یحییٰ (1969 تا 71)،جنرل ضیاء الحق (1977 تا 88) اور جنرل پرویز مشرف (1999 تا 2008) کے ادوار میں مسلح افواج کے وفادار شریک کاروں کا کردار نبھایا۔ سول ملازمین، جو خود کو اس عقیدہ کے تحت محفوظ سمجھتے تھے کہ انہیں آئینی تحفظ حاصل ہے (1973 تک) سیاستدانوں سے تضحیک آمیز رویہ کے حامل رہے۔

1972 میں اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سول سروس کے بڑے حصے کاخاتمہ کردیا۔ انہوں نے آئینی ضمانتوں کو ختم کر کے سول ملازمین کیلئے ادارے کا اپنا ضابطہ اخلاق متعارف کرایا۔

انکے حوصلے پست کرنے کیلئے میڈیا کے ذریعے ایک مہم چلائی گئی جس میں سیاستدانوں نے انکے لئے نوکرشاہی، افسر شاہی اور بابو جیسے تمسخر آمیز القابات کا استعمال کیا۔ افراد کو عوامی سطح پر ذلیل کیا گیا اور اہم عہدے ضمنی طور پر شامل کئے گئے ان نئے ملازمین کو دئے گئے جن کی بھرتی مشتبہ انداز میں کی گئی تھی۔

بے نظیر اور نواز شریف کے ادوار (1988 تا 1999) میں سول سروس مزید سیاسی ہوتی نظر آئی۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے ایسے افسروں کی فہرستیں تیار کی جو انکی جماعت سے ہمدردی رکھتے تھے اور اسی سلسلے میں منفی فہرستیں بھی تیار کی گئیں۔

جنرل پرویز مشرف سونے پر سہاگہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے حلقے سے ایک ہزار وفاداروں کو سول سروس کے عہدوں پر فائز کیا۔

ملک میں نوکری کے مواقع کم ہونے کے پیشِ نظر، سول ملازمین کی ایک بڑی تعداد نے مسلح افواج یا سیاستدان جو بھی اقتدار میں ہوا اسکے ساتھ اطمینان سے ثانوی کردار نبھانے پر اکتفا کیا۔

وہ فوراً جان گئے کہ ضروری سیاسی حمایت کے بغیروہ بیوروکریسی کے پھسلواں پہاڑ کو سر نہیں کر سکیں گے۔کچھ سول ملازمین شاید اتفا ق نہ کریں البتہ بد قسمتی سے یہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔مگر کیاسیاسی ہونا اتنی بری بات ہے؟کئی ممالک ایک غیر جانبدار سول سروس کے نظریے کو ترک کررہے ہیں۔

امریکا میں ایک سپائلز نظام نافذ ہے جس کے تحت ہر چار سال کے بعد واشنگٹن میں انتظامیہ کے تبدیل ہو تے ہی آپ کو حکومت کی تمام اعلیٰ سطحو ں پر نئے صدر کی پالیسی کے حمایتی افراد مامو ر ہو تے نظر آئیں گے۔

یو ں تو 1883 کے پینڈلٹن ایکٹ اور 1939 کے ہیچ ایکٹ نے انتخابی عمل میں شفافیت کے ایک عنصر کو متعارف کرایا اور نچلے اور درمیانے درجوں پر سول ملازمین کے درمیان سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی مگر اعلیٰ ترین درجے مکمل طور پر سیاسی ہیں۔

 کہا جاتا تھا کہ برطانیہ کی سول سروس غیر جانبدار ہے۔ مگر یہاں بھی حالات بدل رہے ہیں۔ جون 2012 میں کیبنٹ منسٹر، فرانسس ماڈ نے سول سروس کی اصلاح کیلئے ایک مہم کو متعارف کیا جس کا مقصد نیوزی لینڈ میں نافذ نظام کی طرح سول سروس کے اعلیٰ درجوں پر معاہدی تعیناتیوں کا آغاز تھا۔

 بقولِ روزنامہ گارڈین،’سر ہمفری (یس پرائم منسٹر کے مشہور کردار) اب آزاد نہیں رہے۔‘

بلاشبہ یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا آغاز میں پست حوصلے رکھنے والی اور موجودہ طور پر ایک سیاست زدہ بیوروکریسی رویوں اور نظام میں تبدیلی قبول کریگی یا نہیں۔

سول ملازمت ایک ضرورت کا حل ہی تو ہے۔ ایک حتمی تجزئیے کے مطابق ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھنے کا مجموعی مقصد پاکستان کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ جس جماعت نے عوامی ووٹوں کی مدد سے اقتدار سنبھالا ہے اسے اصولی طور پر اپنے حلقوں سے کئے گئے وعدے نبھانے کی بھرپور اجازت ہونی چاہئے۔

 سیاست زدہ سول ملازمتیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں کافی بہتر طریقے سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ غیر جانبداری موثر ہونے کی ضروری ضمانت نہیں۔

اسوقت ایک بیباک قدم کی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ سول سروس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اعلیٰ درجے پر تقرریاں ایک آنے والی سیاسی حکومت کی جانب سے اورصرف اسکی معیاد کے مطابق معاہداتی طور پر کی جائیں۔ بقیہ سول ملازمین اپنی پیشہ ورانہ زندگی غیر سیاسی، شفاف اور میرٹ پر مبنی انداز میں گزاریں۔

اس طرح کئی فائدے حاصل ہونگے۔ پہلا یہ کہ بیوروکریسی میں حکومت کے پالیسی مقاصد کی جانب ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔ دوسرا، یہ آگہی کہ وہ سیاسی نظام کے تابع ہیں سول ملازمین کومحض تماشائی نہیں بننے دیگی۔ تیسرا، انہیں ایک معینہ مدت میں کام کر کے دکھانا یا برطرفی کا سامنا کرنا ہوگا۔

چوتھا، سینئر سول ملازمین جلد سمجھ جائیں گے کہ وہ اور سیاسی قیادت ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں جنہیں ساتھ ڈوبنا اورساتھ تیرنا ہوتا ہے۔

پانچواں، درمیانے اور نچلے درجے کے سول ملازمین دباؤ سے آزاد ہوجائینگے اور اصولوں پر مبنی صلاح دینے کے اہل ہو سکیں گے۔ اتفاق نہ کرنے کی سزا محض تبادلہ ہوگی۔ ہمیں یہ طریقہ بھی آزما کر دیکھنا چاہئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Jan 12, 2013 07:23pm
تمام ملازمین ریاست کے ملازم هوتے هیں آپ اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کۂ حکومت بھی ریاست کیلئے هوتی هے صدر وزیر اعظم وزیر مشیر گورنر وزیراعلئ بھی ایک طرح کے ملازم هوتے هیں وه بھی باقاعدہ تنخواہ اور مراعات لیتے هیں ان کو بھی پارٹی سیاست بالاتر رهنا هوگا وه بھی کسی کو غیر قانونی کام کرنے کا خکم نہیں دے سکتے