فادر نقشہ ساز
پہلا حصہ گنگا کھوجی پڑھنے کے لیے کِلک کیجیے۔
مہابلی اکبر کے عہد سے پہلے، تبلیغ کے لیے مسیحی مشن سرزمین ہِند پر پہنچتے رہے ہیں۔ اکبرخود بھی مختلف مذاہب کی ترویج و اشاعت میں دلچسپی رکھتا تھا۔ عہدِ اکبری میں اطالیہ سے تعلق رکھنے والے کئی مسیحی مشن یہا ں پہنچے تھے۔
ان میں سے کچھ دربارِ اکبری سے بھی وابستہ رہے۔ ایک تو اکبر کے بیٹوں کے اتالیق بھی بنے۔ یہ تھے فادر انتونیو ایندرادے۔
فادر انتونیو ڈھائی برس تک اکبر کے دربار سے وابستہ رہے۔ اسی دوران ہی انہیں علم ہوا کہ وہاں اوپر، جہاں سے گنگا بہتی ہے، دشوار گزار مسافت پر ایک جھیل کنارے بہت سے لوگ آباد ہیں۔ اُن بے چاروں کو تو شاید دین کا بہت زیادہ علم نہیں ہوگامگر فادر انتونیو نے سوچا ہوگا کہ خود اُنہیں تو پتا ہے کہ تبلیغ کی اشد ضرورت ہے۔
سو فادر نے ایک مہم کا آغاز کیا اور سن سولہ سو چوبیس عیسوی میں چل پڑے تِبّت کی طرف گنگا کے سُوتے کی تلاش میں لیکن منزل سے کچھ فاصلے پر آکسیجن کی کمی انہیں لے ڈوبی۔ فادر انتونیو کی حادثاتی موت سے وہ بے چارے پہاڑی تبلیغ سے محروم ہوئے تو بہت سے میدانی یہ جاننے سے رہ گئے کہ آخر گنگا چلتی کہاں سے ہے؟
ہوسکتا ہے کہ فادر، مہابلی اکبر شہنشاہِ ہِند کی پہلی مہم کی معلومات میں کچھ اضافے کا سبب بنتے۔۔۔ پر تقدیر کا لکھا تاریخ اور جغرافیہ کے بیچ حائل ہوگیا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ میدانوں میں رہنے والے ہندوستانی سنیاسی اور جوگیوں نے فادر انتونیو اور ان کے ارِیب قریب کے ہی نہیں، اُن سے بھی بہت ہی پہلے کے بعض مسیحی مبلغین کو یہ پٹّی پڑھادی تھی کہ وہاں، بہت دور اُونچے اُونچے برف والے پہاڑوں میں کئی ایسے لوگ آباد ہیں جو خود کو حضرت عیسیٰ کا پیروکار بتاتے ہیں۔
اس چکر میں اکبر کے مہم جوؤں سے صدیوں پہلے ایک اطالوی پادری راہ کی صعوبتیں اُٹھاتے اُٹھاتے ایک ایسی جگہ جا پہنچے جس کا پتا انہیں جوگیوں اور سنیاسیوں سے معلوم ہوا تھا مگر وہاں نہ آدم نہ آدم زاد ۔۔۔ بزرگ اتنے جھّلائے کہ لکھ گئے:
''یہ ہندوستانی جوگی اور سنیاسی جو نگر نگر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں اور بڑے بڑے قصے سناتے ہیں اکثر بہت ہی جھوٹے ہیں ۔ یہ ایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ بس لگے کہ جیسے سچ ہی ہو۔"
یہ صاحب گئے تو تھے عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی تلاش میں لیکن نادانستگی میں دریافت کر آئے تِبّت کے ہمالیہ سلسلے کی اُس عظیم الشان جھیل کی جس سے گنگا ہی نہیں، ہِند اور سندھ کے کئی عظیم ترین دریاؤں کے سُوتے بھی پھوٹتے ہیں۔
یہ صاحب تھے عیسائی مبلغ دا مونسر راتے، جو فادر انتونیو سے بھی تین صدیوں پہلے اُس مقام تک پہنچ گئے تھے، جس کی راہ میں فادر انتونیو کو اپنی جان گنوانا پڑی اور مہابلی اکبر کو مہم جُو ٹیم بھیجنا پڑی تھی۔
فادر دامونسرکا حال کھلا سن اُنیّس سو چھ میں۔ ہوا یہ کہ ہِندوستان میں فادر مونسر نے نگر نگر کی سیر میں سادھوؤں، سنیاسیوں اور جوگیوں سے بھی علیک سلیک بڑھالی تھی۔
کئیوں نے شاید انہیں بتایا ہوگا کہ جہاں سے گنگا بہنا شروع ہوتی ہے، اس سے تھوڑا آگے، دشوار گزار مسافت کے بعد مسیحی باشندوں کی ایک چھوٹی سی بستی موجود ہے۔ بس یہ سنتے ہی انہوں نے رختِ سفر باندھ لیا۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا؟
ہوا یہ کہ جب اونچے اونچے پربتوں کے اوپر بنے میدانوں میں مسیحیوں کو نا پا کر فادر دامونسرناکام لوٹ آئے تواُس کے بعد چرچ نے ان کا تبادلہ ایبی سینیا کردیا گیا، جہاں انہوں نے چھ برس گوشہ نشینی میں بِتائے اور اطالوی زبان میں ہندوستان کے قصے اور خود پہ جو گزری تھی، اسے رقم کرنے میں گزاردیے۔
یادداشتیں لکھتے لکھتے کہیں پر ہمالیہ کے بُلند ترین میدان پرمسیحی باشندوں کی تلاش کا ذکر چل نکلا۔ پھر جو انہوں نے جوگیوں اور سنیاسیوں کے لتّے لیے، وہ تو آپ پہلے ہی پڑھ ہی چکے، اس کے بعد جو انہوں نے لکھا وہ نادانستگی میں یا اتفاق سے ایک اہم ثبوت ہے ہِند اور سندھ کے عظیم دریاؤں کے منبع کا، فادر انتونیو نے لکھا تھا:
"پہاڑ خطرناک اورانتہائی ڈھلوانی سطح کے ہیں۔ ان پر چڑھنا بہت مشکل ہے، البتہ انہیں سَر کرلو تو اوپر جا کر ہموار میدان ہے جو رہائش کے لیے موافق ہے۔ یہاں پر ایک بہت بڑی جھیل بھی ہے جسے وادی کے قدیم مقامی پہاڑی باشندے منسرووَر جھیل کہتے ہیں"۔
اس تحریر کے ساتھ ایک پانچ ضرب چار انچ کا چھوٹا سا نقشہ بھی منسلک ہے۔ جس میں ہمالیہ سلسلۂ کوہ کی نشاندہی کی گئی ہے اور ایک دائرہ بنا کر اس پر واضح الفاظو ں میں 'جھیل منسرووَر' بھی تحریر ہے۔
فادر انتونیو کا یہ اہم ثبوت ان قلمی یادداشتوں میں ملا جو کل کے کلکتہ اور آج کے کولکتہ کے سینٹ پال کتھیڈرل لائبریری میں موجود ہیں۔
سن اُنیّس سو چھ میں ان قلمی مخطوطات کی دریافت ہوئی تھی لیکن اب تک نہ تو یہ اطالوی سے انگریزی یا کسی دوسری زبان میں ترجمہ ہوسکے اور نہ ہی خود اطالوی زبان میں ان کی اشاعت ممکن ہو پائی ہے البتہ جتنا کچھ پتا چل سکا، وہ آپ پڑھ چکے۔
فادر کے ساتھ اور کیا کچھ ہوا تھا؟ وہ تو تفصیل سے تب پتا چلے گا جب کبھی ان کی یادداشتیں شائع ہو کر دنیا کے سامنے آئیں گی۔ البتہ عہدِ اکبری سے قبل ہی تنِ تنہا فادر اپنے مخطوطات میں گنگا ہی نہیں، کئی اور اہم دریاؤں کے منبع کا بھی راز فاش کرگئے تھے۔
عہدِ اکبری میں بھی بعضوں کو علم تھا کہ تبت کے پہاڑوں میں بہت اوپرموجود منسرووَر صرف ایک جھیل نہیں، بہت بڑی جھیل ہے۔ اکیسویں صدی میں آج ہم سب جانتے ہیں کہ یہ گنگا میّا کی بھی میّا ہے اور کئی دوسرے بڑے دریاؤں کی بھی، جن میں سے ایک عظیم دریائے سندھ ہے۔
یہ اور بات کہ بات اتفاق سے بنی۔ ہمارے نزدیک تو یہ نہایت حسین اتفاق ہے۔ فادر کے نزدیک کیا تھا ۔۔۔ ان کی وہ جانیں، ان کے مخطوطات جانیں یا پھر ان کا، آپ کا اور ہم سب کا رب جانے۔
بعد کے برسوں میں یہ ہوا کہ سن سولہ سو پچیس میں ایک مغربی مہم جو سیموئیل پرچیز کی کتاب ' پِرچیز ہز پِلگرمس' شائع ہوئی، اُس وقت مہابلی اکبر کی وفات کو اُنیس برس بیت چکے تھے۔
اس کتاب میں ایک نقشہ بھی شامل ہے، جس سے متعلق دعویٰ تھا کہ اس کی رہنمائی میں گائے کے اُس سر تک پہنچا جاسکتا ہے کہ جس کے منہ سے گنگا بہتی تھی۔
اس نقشے کے بعد انگریز اور کئی دوسرے مغربی ملکوں کے آوارہ گرد بھی وہاں تک پہنچنے کے لیے مہمات کے منصوبے بنانے لگے۔ پھر تو چَل سو چَل۔۔۔
مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔