دسمبر کا جھٹکا

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2015

بیسویں صدی وطنی ریاستوں (Nation States) کے ظہور سے عبارت ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیموں کے بعد تو لاتعداد نئے ملک وجود میں آئے۔ ایسے ہی 16 دسمبر کو بھی ایک جنگ کے بعد بنگلہ دیش کا ظہور ہوا۔ یوں ہمارا خطہ محض 24 سالوں میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذرا۔

دلچسپ تضاد یہ ہے کہ جو 1947 والی تقسیم کے خلاف تھے وہ آج نئی تقسیم میں حصہ دار تھے جبکہ جنھیں 1947 کی تقسیم بھاتی تھی وہ آج ناخوش تھے۔ ہندوستانی و پاکستانی قوم پرستوں نے ان دونوں تقسیموں کے بعد "باہر والوں" پر الزام لگا کر اپنی جان چھڑانے پر اکتفا کو "قومی مفاد" قرار دیا۔

1947 کی تقسیم کے بعد ہندوستانی قوم پرستوں نے اقبال و جناح اور انگریزوں پر سارا "ملبہ" ڈالنا ضروری گردانا تو 1971 کے بعد مغربی پاکستان کے جیالوں نے مجیب الرحمن اور ہندوستانی و روسی لابی ہی کو اس کارستانی کا محرک قرار دے کر تبرا کیا۔

'باہر والوں' کو مجرم قرار دے کر اپنا رانجھا راضی کرنا وہ روایت ہے جسے عرف عام میں 'بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کرنا' سے مماثلث دی جا سکتی ہے۔

آج 16 دسمبر کو 42 سال گزر چکے ہیں مگر تاحال ہم اس بارے مفصل تجزیہ نہیں کر سکے۔ مغربی پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں اور ہندوستانیوں کا اس میں بھرپور کردار تھا کہ اس کا الگ الگ تجزیہ درکار ہے جبکہ سابقہ سویت یونین، امریکہ، برطانیہ اور عوامی جمہوریہ چین کا کردار بھی کسی طرح غیر اہم نہیں تھا۔

جیسے ہمارے ہاں اس حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر موجود تھے ویسے ہی دیگر ممالک میں بھی مشرقی پاکستان کے حوالہ سے بحث و مباحث جاری تھے۔ ہم نے تو تاحال ایسے بحث و مباحث کو یکجا کر کے چھاپا بھی نہیں تو اس کا تجزیہ کہاں کرنا تھا۔

پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ سویت یونین پاکستان کو توڑنا چاہتا تھا اور اس نے ہندوستان سے مل کر 1971 میں پاکستان توڑنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کار خیر میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا یعنی سی پی آئی نے ان دونوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔

2003 میں سی پی آئی کے سینئر کارکن و بنگالی دانشور موہیت سین نے اپنی سوانح 'ایک مسافر اور راستہ' A Traveller and the Road لکھی تھی۔ روپا پبلشر کی چھپی یہ کتاب سی پی آئی کی غیر رسمی تاریخ بھی ہے اور اک دردمند کمیونسٹ کی داستان الم بھی۔

1971 کے دنوں میں موہیت سین سینئر کامریڈ راجیشور راﺅ کے نزدیک تھے۔ یہ وہی راجیشور راﺅ تھے جو سویت پولٹ بیورو، اندرا گاندھی اور سی پی آئی کے درمیان رابطے کا کام بھی کرتے تھے۔ راجیشور راﺅ کے حوالے سے اپنی کتاب کے صفحہ 312 سے 320 کے درمیان 16 دسمبر کی کہانی لکھی ہے جو یہ پتہ دیتی ہے کہ ہندوستان سے معاہدہ کرنے اور مشرقی بنگالیوں کو ہندوستانی مدد دینے کے حوالہ سے روسی پولیٹ بیورو بھی منقسم تھی۔

وہ کامریڈ جو اس 'معاہدہ و مدد' کو غلط قدم سمجھتے تھے ان کی قیادت کوئی اور نہیں بلکہ روسی وزیرخارجہ آندرے گرومیکو کر رہے تھے۔ موہیت سین کے بقول گرومیکو سمجھتے تھے اس معاہدہ کا مطلب 'پاکستان توڑنے' میں روسی مدد ہی لیا جائے گا اور اس سے پاکستان میں نہ صرف ردعمل بڑھے گا بلکہ خطے کا امن بھی برباد ہو جائے گا۔ وہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی اخلاقی مدد کے حق میں تھے۔ البتہ روسی وزیراعظم کوسجن اور جنرل سیکرٹری بریژنیف کو گرومیکو سے اختلاف تھا اور یوں گرومیکو کی بات نہ مانی گئی۔ ایسے ہی ویت نام، چیکو سلواکیہ اور بلغاریہ سے سمجھتے تھے کہ ہندوستانی فوجوں کو کسی بھی صورت بین الاقوامی سرحد کو عبور نہیں کرنا چاہیے۔

جو کچھ 1971 کے بعد اس خطہ میں ہوا اس نے گرومیکو کے نقطہ نظر کی حقانیت کو ثابت کیا کہ یہ خطہ اس کے بعد جس تیزی سے مار دھاڑ، گھیراﺅ جلاﺅ اور انتہا پسندیوں کی طرف بڑھا اس کے تو ہم سب زندہ گواہ ہیں۔

اس دور میں اپنے فیض احمد فیض کا شمار بھی ان چند ترقی پسندوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس وقت فوج، مجیب اور بھٹو میں سمجھوتہ کروانے کی راہ کی بات کی تھی۔ مگر ان کے بہت سے بھائی بند ہی ان کے خلاف تھے تو دوسروں نے کیا ان کی بات سننی تھی۔

ان واقعات کو لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ 16۔ دسمبر کا جھٹکا تو بہت سے حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے مگر ہم تاحال اس بارے مفصل بات کرنے سے قاصر ہی ہیں۔

موہیت سین نے تو اپنی کتاب میں سویت یونین میں تعینات ہندوستانی سفیر کے اہم کردار کی بات کی ہے مگر اس دور میں امریکہ، ہندوستان، برطانیہ، سویت یونین اور چین میں ہمارے سفیروں نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ کیا انھیں یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ روسی پولٹ بیورو میں اس حوالہ سے دو آراء پائی جاتی ہیں اور کیا انھوں نے گرومیکو سے رابطہ کیا تھا؟

دوسری اہم بات ان پالیسیوں اور حالات کا تجزیہ ہے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے۔

1952 میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے اُردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا تھا۔ اس کے ردعمل میں جب مشرقی بنگال کے لوگوں نے احتجاج کیا تو انھیں جواب میں گولیاں ملیں۔

یہ احتجاج 1954 کے صوبائی انتخابات میں سیاسی قالب میں ڈھل گیا اور مسلم لیگ کو مشرقی بنگال میں ایک متحدہ محاذ جگنو فرنٹ کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی۔ اس کے بعد مادری زبانوں کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے محمد علی فارمولا کے تحت اُردو کے ساتھ بنگلہ زبان کو بھی تخت نشینی دے دی گئی۔

جگنو فرنٹ اور مغربی پاکستان کے حکمرانوں میں سمجھوتہ یہ ہوا کہ وہ ون یونٹ تسلیم کر لیں تو بنگالی زبان کو دوسری قومی زبان مان لیا جائے گا۔ جگنو فرنٹ والے مان گئے۔

مشرقی بنگال کے سیاستدانوں کا اہم ترین مطالبہ وفاقی آمدن کی منصفانہ تقسیم تھا۔ حسین شہید سہروردی نے اسے حل کرنے کی راہ دریافت کر لی تو انھیں چلتا کر دیا گیا۔ بنگالیوں کو تو پہلے کراچی اور بعد ازاں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی۔ ایوبی دور میں ہونے والی جس صنعتی ترقی کا بہت زیادہ چرچا کیا جاتا ہے اس کو مشرقی پاکستان والے اپنے معاشی استحصال سے گردانتے تھے۔ محبوب الحق نے 22 امیر ترین خاندانوں کے اعدادوشمار دیے تو ان میں کتنے بنگالی تھے اس بارے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔

حد تو یہ ہے کہ 1970 کے انتخابات سے قبل مولانا بھاشانی کو انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر کس نے مجبور کیا تھا؟

مولانا بھاشانی مجیب الرحمن کے برعکس مشرقی و مغربی پاکستان دونوں میں انتخابات لڑ رہے تھے۔ جو کچھ 1971 کے فوجی آپریشن کے دوران ہوا اس بارے حمودالرحمن رپورٹ اور کے کے عزیز کی کتاب اہم ترین دستاویزات ہیں۔

بیگم عزیز کے بقول اس رپورٹ کی دستاویزات 39 ڈبوں میں محفوظ تھیں جنھیں کے کے عزیز کو پڑھنے اور ایک کتاب لکھنے کا حکم بھٹو صاحب نے دیا تھا۔ مگر وہ کتاب قدرت اللہ شہاب کی وجہ سے کبھی نہ چھپ سکی۔ بیگم صاحبہ کا مضمون بائیں بازوں کے رسالے عوامی جمہوری فورم نے اپنے شمارہ نمبر 49 میں چھاپا تھا۔

جہاں تک حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا معاملہ ہے تو اس کے چند سو صفحات ہی ہندوستان سے شائع ہو سکے۔ ان کے مستند ہونے کے بارے میں بھی شک کیا جا سکتا ہے۔ اب جہاں صورتحال یہ ہوگی وہاں ہم اپنی کوتاہیوں سے سبق کہاں سیکھیں گے۔

16 دسمبر کے جھٹکے تاحال جاری ہیں۔ گو کہ پاکستان میں پہلی بار ووٹوں کے ذریعے جمہوری تسلسل کا تجربہ کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے مگر تاحال جس عرق ریزی سے تاریخ پاکستان پر کام کی ضرورت ہے وہ عنقا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں