دو ریلیوں کی کہانی
اتوار کی شام جڑواں شہروں میں حکومت کے خلاف گھسی پٹی باتوں اور فوج کے ساتھ وفاداری نبھانے کے عزم کے سوا دونوں ریلیوں میں کچھ بھی مشترک نہ تھا - اسلام آباد کے ڈی-چوک میں تو تحریک انصاف کی ریلی میں ایک میلے کا سا ماحول تھا جس میں شہر کی اشرافیہ اور آس پاس کے علاقے کے لوگوں کا ایک ملا جلا ہجوم تھا- اگرچہ کہ یہ ایک کامیاب ریلی تھی مگر پچھلی میٹنگوں والا جوش موجود نہیں تھا- ممکن ہے کہ پچھلے سال کے انتخابات کے بعد اب حالات بدل گئے ہوں-
اس کے برخلاف، راولپنڈی میں طاہرالقادری کی ریلی میں چھوٹے شہروں اور وسطی پنجاب میں ان کے عقیدت مندوں اور منہاج القران کے تحت چلنے والے مذہبی اسکولوں کے طلباء شامل تھے- یہ تمام مرد، عورت اور بچے اپنے قائد کے خطاب کو سننے کیلئے جمع ہوئے تھے جو وہ کینیڈا میں اپنی آرام دہ قیام گاہ سے وڈیو لنک کے ذریعے کرنے والے تھے-
مخصوص فرقہ کے منظم پیروکاروں کی طرح، جس کے قائد کا ہر حکم ان کیلئے مقدس ہوتا ہے- آپ کو یاد ہو گا پچھلے سال اسلام آباد میں تین دنوں تک، جس طرح سے وہ تمام لوگ ناقابل برداشت شدید سردی کا مقابلہ کر کے وہیں موجود رہے تھے؟ لیکن یہ سب بمشکل ایک ایسے انقلاب کا پیش خیمہ ہیں جس کو لانے کا وعدہ قادری صاحب نے لوگوں سے کیا تھا-
ہمیشہ کی طرح شیخ رشید کی بڑھکوں نے، دس منٹ میں حکومت گرانے کی، شائد ناظرین کو تفریح کا چھوٹا سا موقع فراہم کیا ہو، لیکن ڈی- چوک میں جو تقریریں ہوئیں ان میں سمت نظر نہیں آ رہی تھی- وہ عموماً الیکشن فراڈ اور دھاندلی کے بارے میں بار بار دہرائے ہوئے الزامات کے گرد تھیں- زیادہ وقت ایک مخصوص میڈیا گروپ پر تنقید کرتے اور اس پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہوئے گذرا--- جرم میں ملی بھگت سے لیکر ریاست کے خلاف ایجنڈا تک-
دھاندلی کے مسئلے کو دوبارہ اٹھانے کیلئے ایک سال بہت زیادہ ہوتا ہے، اس دوران بہت کچھ ہوچکا ہوتا ہے- اور پی ٹی آئی نے تو یہ موقع اسی وقت کھودیا تھا جب اس نے نتیجے کے خلاف اپنا احتجاج واپس لے لیا تھا- اب تو، شاید عوامی رائے منظم کرنے کیلئے کافی دیر ہو چکی ہے-
عمران خان نے پی ایم ایل- ن کے حکومت کرنے کے مینڈیٹ کو نہ صرف تسلیم کیا تھا، بلکہ اس دوران میں چند ایک بہت اہم پالیسی معاملات پر مل کر کام بھی کیا تھا- پی ٹی آئی کا رول عسکریت پسندی کے مسئلے پر تقریباً ثانوی تھا، حکومت کی طرح، پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پوری حمایت کر کے- اور یہ بہترین تعلقات اور زیادہ مستحکم اس وقت ہوئے جب اس سال کے شروع میں وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی-
یہ بھی زیادہ واضح نہیں ہے کہ عمران خان اس فراڈ کا ذمہ دار دراصل کس کو ٹھہرا رہے ہیں- انہوں نے تو سب کو الزام دیا ہے--- الیکشن کمیشن سے لیکر سابق چیف جسٹس سے لے کر پنجاب کی نگراں انتظامیہ سے لیکرایک میڈیا گروپ تک--- اس کی وجہ سے معاملہ بے حد پیچیدہ ہو گیا ہے- یہ سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے-
یقیناً دھاندلیوں کی رپورٹیں پورے ملک میں وسیع پیمانے پر ہوئی تھیں اور نتیجے سے کوئی بھی جماعت مطمئن نہیں تھی- دھاندلی صرف پنجاب کے چند حلقوں میں نہیں ہوئی، جہاں پی ٹی آئی دوبارہ گنتی اورووٹوں کی جانچ کا مطالبہ کر رہی ہے- دوسری سیاسی جماعتوں کی شکایتیں بھی کیوں نہ سنی جائیں؟
جو بات پی ٹی آئی نہیں کر رہی وہ خیبر پختونخوا میں الیکشن سے پہلے کی دھاندلی ہے جس میں عوامی نیشنل پارٹی کو امیدواروں پر ٹارگیٹڈ حملوں کی وجہ سے اپنی مہم روک دینے پر مجبور کر دیا گیا تھا- ظاہر ہے اس کی وجہ سے الیکشن یکطرفہ ہو گیا تھا اورصرف طالبان کی حمایت کردہ پارٹیوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت تھی- لیکن کوئی سیاسی جماعت اس مسئلے کو نہیں اٹھانا چاہتی-
یقیناً عمران خان سے انتخابی اصلاحات کے ناگزیر ہونے پر ہر ایک متفق ہو گا اور ایک مکمل آزاد اور طاقتور الیکشن کمیشن کا قیام ہی انتخابی عمل کومستقبل میں زیادہ معتبر اور غیرمتنازعہ بنائیگا- لیکن اس کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑیگی جس کیلئے پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے-
عمران خان نے عہد کیا ہے کہ وہ احتجاج جاری رکھیںگے، اس وقت تک جبتک کہ ان کی چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کی مانگیں نہ پوری ہوجائیں- ایک بہت اہم سوال یہ ہے کہ اس سے تنازعہ کا حل نکلے گا یا یہ ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گا- ایک حل جو اکثر پیش کیا جاتا ہے وہ مڈ ٹرم انتخابات کا ہے، مگرجو اہم جماعتیں ہیں ان کو شاید یہ قبول نہ ہو گا-
اس ایک نکاتی ایجنڈے نے دراصل پی ٹی آئی کی توجہ ملک کو درپیش اصل اور اہم مسائل سے دوسری جانب کر دی ہے- عمران خان نے اپنی تقریر میں ملک کو درپیش دہشت گردی کے تشویشناک مسئلے کا ذکر تک نہیں کیا جوابھی تک خراج وصول کر رہا ہے، خصوصاً کے پی میں جہاں ان کی پارٹی کی حکومت ہے-
دریں اثناء، قادری صاحب نے راولپنڈی میں، پورے سیاسی نظام کوعوام کی مدد سے لپیٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے- پچھلے سال کے برخلاف، اس بارقادری صاحب وہاں خود موجود بھی نہیں تھے، انقلاب کی رہنمائی انہوں نے باہررہ کر کرنے کو ترجیح دی- پچھلے سال کی توہین کے بعد، واپسی کا فیصلہ کرنے سے پہلے وہ حالات کو جانچنا چاہتے تھے جو ان کا ہر سال کا ایک طریقہ بن چکا ہے-
ان کی غیرموجودگی میں، ان کے صاحبزادوں نے ریلی کومنظم کرنے کی ذمہ داری سنبھالی- ظاہر ہے، اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے کہ خاندان کا کوئی فرد ان کا لبادہ اوڑھ کر وراثت کی سیاست کرے حالانکہ خود قادری صاحب وراثتی سیاست کے خلاف تھے - جو بات دوسرے لوگوں کیلئے غلط ہے ان کے لئے اس میں کوئی برائی نہیں ہے- قادری صاحب کی اس حیثیت کی وجہ ان کے بے اندازہ مالی ذرائع ہیں جسے وہ میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں- اس لئے تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ ان کے انٹرویوز باقاعدگی سے ٹی وی چینل نشر کرتے رہتے ہیں-
ان دونوں ریلیوں نے الیکٹرانک میڈیا کی نام نہاد آزادی کو بے نقاب کر دیا ہے اور اپنا اعتبار بھی کھو دیا ہے- واقعات کے نشر کرنے میں مقصدیت کو سب سے زیادہ زک پہنچی ہے- اگرٹی وی چینل پوری تقریر کو براہ راست نشر نہ کرتے تو شاید قادری صاحب کی ریلی کا کوئی خاص اثربھی نہ ہوتا- دراصل حکومت نے پی ٹی آئی کی اس مہم کو جمہوری نظام کو پٹڑی سے اتارنے کی سازش قرار دے کر بلاوجہ شدید ردعمل کا اظہار کیا- لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا عمران خان شریف حکومت کو زیادہ دباؤ میں لا بھی سکتے ہیں-
لکھاری لکھنے کے علاوہ وکالت بھی کرتے ہیں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری












لائیو ٹی وی