اعتزاز حسن: پاکستانی قوم کا ہیرو

12 جنوری 2015
اعتزاز حسن کی جماعت کے ساتھی اس کی تصویر کے ساتھ بیٹھے ہیں — اے پی فوٹو
اعتزاز حسن کی جماعت کے ساتھی اس کی تصویر کے ساتھ بیٹھے ہیں — اے پی فوٹو

بچے اپنی جستجو میں بہادر اور لاپروا ہوسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے نتائج پر غور و فکر نہ کریں اور نہ ہی خطرات کے امکانات انہیں روک سکیں۔ جب ہم بچے اور بچیاں ہوتے ہیں تو انمٹ نقوش چھوڑ جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اس دوران موت بھی آجائے تو بچے اس سفر کے اختتام کے ڈر سے مفلوج نہیں ہوجاتے۔

ممکن ہے کہ اعتزاز حسن بنگش نے یہ سوچا نہ ہو کہ ایک خودکش حملہ آور سے بھڑنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسے معلوم نہ ہو کہ اس کے نتیجے میں موت بھی ہوسکتی ہے۔ یا شاید اسے معلوم ہو، لیکن یہ جاننا بھی اسے روک نہیں سکا۔

بچے چیزوں کا سامنا بہادری سے کرتے ہیں، وہ زندگی کے بھیانک حقائق کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس وقت بھی نڈر رہتے ہیں جب بالغ افراد زندگی کے تھپیڑوں سے ٹکرا کر لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں۔

آپ کو یہ جاننے کے لیے گذشتہ مہینے پشاور کے اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد بچ جانے والے بچوں کے چہروں کو دیکھنا ہوگا۔ اس بھیانک سانحے کے اثرات ان کی آواز میں محسوس کیے جاسکتے ہیں مگر ان کے اندر کوئی چیز منجمد اور کچھ سخت ہوگیا ہے۔

ہسپتال کے بستر جہاں وہ ممیوں کی طرح پٹیوں میں لپٹے لیٹے ہیں وہ ہمیں ان ننھے ہیروز کی کہانیاں سناتے ہیں جن کے ناموں سے قوم واقف نہیں، ایک بے نام لڑکا اسکول سے زندہ اور محفوظ نکل آیا تھا مگر پھر اندر پھنسے اپنے چھوٹے بھائی کو بچانے کے لیے واپس گیا، ان بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں بعد میں برآمد ہوئیں۔

یہ بچے غیراعلانیہ موت کا شکار ہوئے۔ اور جہاں تک اعتزاز کی بات ہے یعنی وہ لڑکا جس نے ایک سال قبل اسکول کی مارننگ اسمبلی پر حملہ کرنے والے ایک خودکش بمبار کو روکا، اس کے لیے موت کا حقیقی امکان تھا۔

ابراہیم زئی گاﺅں سے تعلق رکھنے والے اعتزاز اور دیگر لڑکے اس وقت خوش گپیوں میں مصروف تھے جبکہ سفاک چہرے کے ساتھ حملے کے لیے گھات لگائے حملہ آور پرعزم تھا اور حملے کے لیے موقع کا انتظار کررہا تھا۔ یہ گاﺅں کوہاٹ ہنگو روڈ کے ساتھ واقع ہے جہاں فرقہ وارانہ تشدد اور عسکریت پسند روزمرہ زندگی کی حقیقت اور سانحات جیسے فٹبال گراﺅنڈ میں اتوار کو دھماکہ زندگی کے حقائق میں دہائیوں سے شامل ہیں۔ یہ واقعات کچھ دیر کے لیے بھڑکتے ہیں جیسے نوجوان زندگیوں کا خاتمہ ہماری ٹی وی اسکرینز پر بریکنگ نیوز کا حصہ بنتا ہے اور بہت جلد بھلا بھی دیا جاتا ہے۔

ان علاقوں میں نوجوانوں کو اپنے دیہات کے تحفظ کے لیے رضاکار بننے کے لیے کہا جاتا ہے اور یہاں اپنے تحفظ کے لیے اب ریاست کی جانب نہیں دیکھا جاتا۔ یہاں اسکول کو خطرات کا سامنا تھا اور وہ اب بھی ہے۔

اگرچہ لوگوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام نے اعتزاز جیسے لڑکپن اور نوجوانی کے درمیان کھڑے لڑکے کو سخت کردیا تھا مگر اس کی قربانی بہت بڑٰی ہے۔

یہ لڑکا ایک بم کے لیے بہت بڑا ثابت ہوا تو اس کے دوستوں میں یہ مذاق عام تھا " ایک بم تمہیں بہت تھوڑا ہی نقصان پہنچا سکتا ہے" اس سے وہ اعتزاز کو چھیڑا کرتے تھے، وہ ہر وقت خودکش حملہ آوروں کی بات کرتے تھے اور اسے واضح اور موجودہ خطرہ سمجھ کر بات کرتے تھے کہ اگر کسی سے سامنا ہوگیا تو وہ کیسے ردعمل کا مظاہرہ کریں گے؟

آخری بار جب انہوں نے اس بارے میں بات کی تھی، تو یہ اعتزاز کی قربانی سے دو روز پہلے تھی۔ اس وقت وہ اس چوٹی پر بیٹھے ہوئے تھے جہاں اسکول واقع ہے، جس کا نام اسے بچانے والے کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ اعتزاز اپنے وزن کی وجہ سے بھاگ نہیں پائے گا۔

مگر زندگی سفاک حقائق کے سامنے کوئی مذاق نہیں۔ یہ لڑکے اکثر پہاڑیوں پر شکار اور پکنکس وغیرہ کے لیے جاتے تھے۔ اعتزاز کھیل نہیں پاتا تھا، مگر اسے کرکٹ اور فٹبال سے عشق تھا۔ وہ مقامی ٹورنامنٹ کو دیکھا کرتا تھا جبکہ وہ اپنے نوجوان جسم کی توانائی فلاحی کاموں پر بھی صرف کرتا تھا۔

اسکول کے پرنسپل طاہر علی اعتزاز کی شخصیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں "تعلیمی لحاظ سے ناقص کارکردگی اور سماجی کاموں میں پیش پیش"۔

طاہر علی نے اعتزاز کی تصویر اپنے دفتر کی دیوار میں قائد اعظم محمد علی جناح کے برابر میں لگا رکھی ہے "بالکل ملالہ کی طرح جس نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے نوجوانوں کے تصور میں انقلاب برپا کیا، اعتزاز نے اپنی قربانی سے لوگوں میں قربانی کا جذبہ بیدار کیا ہے۔"

وہ اوسط درجے کا طالبعلم تھا جو فوج میں شمولیت کا خواہشمند تھا۔ جب وہ شکار کے لیے پہاڑوں پر جایا کرتا تو وہ فوجی وردی پہن لیتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ لوگ فوج کو چاہتے ہیں اور دیگر نوجوانوں کی طرح وہ اپنے ساتھیوں کو اپنی وردی اور گن سے متاثر کرنا چاہتا تھا۔

اعتزاز کے استاد مستغیث الحسن جو اب بھی بچوں اور اسکول کی سکیورٹی کے لیے فکرمند ہیں، بتاتے ہیں "آپ وضاحت نہیں کرسکتے کہ اس نے جو کیا، وہ کیوں کیا۔ جماعت نہم کا ایک بچہ جو چھ فٹ لمبا اور کسی ٹینک کی طرح جسامت رکھتا تھا۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ سب وقت کا کمال ہے، وہ اس وقت وہاں موجود تھا جب خودکش بمبار یہاں آیا"۔

دیگر بچے بھی وہاں تھے مگر وہ بمبار کو دیکھ کر بھاگنے لگے۔ صرف خود کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اسکول انتظامیہ کو خبردار کرنے کے لیے بھی کہ ایک خودکش بمبار اسکول کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اعتزاز نے اس موقع پر وہاں ڈٹے رہنے کا انتخاب کیا۔

ممکن ہے کہ وہ ایسا لڑکا تھا، جو انتہائی پرتشدد علاقے میں رہنے کی وجہ سے وقت سے پہلے بڑا ہوگیا تھا، ایک لڑکا جو خود کو اپنے گاﺅں، اسکول اور برادری کے تحفظ کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تمام بچوں کی طرح دلیر، بس تھوڑا سا زیادہ لاپرواہ ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ خوفزدہ مگر اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ اس کے دوست اسے خطرے کی زد میں آکر دوڑنے کا طعنہ دے کر چھیڑتے ہیں اور اب انہیں غلط ثابت کرنے کا موقع آگیا ہے۔

کون جانتا ہے کہ سردیوں کی اس صبح اعتزاز نے ایسا کیوں کیا جب اس نے بمبار کا سامنا کرنے سے پہلے لڑکوں کو دور بھاگنے کا کہا۔ ہم تو بس یہی جانتے ہیں اس نے اس روز مارننگ اسمبلی میں موجود لگ بھگ سات سو لڑکوں کو بچالیا تھا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

.Salim Haidrani Dr Jan 15, 2015 01:58am
There is no doubt Aitzaz Hassan is great hero of our time when terrorism has become a religious and a political weapon for those who are represented by the dark forces of Ignorant and Evel. Aitzaz Hassan will be remembered for ever and my all prayers for this young man.