امریکا ہمارا قابل اعتبار دوست نہیں، خواجہ آصف

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2014
وزیر دفاع خواجہ آصف— رائٹرز فائل فوٹو
وزیر دفاع خواجہ آصف— رائٹرز فائل فوٹو

اسلام آباد : امریکا اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی پر مبنی تعلق کے مشکل سچ کا اعتراف وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن کی جانب سے اس وقت سامنے آیا جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے واشنگٹن کے پاکستان کے قابل اعتماد دوست ہونے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگادیا۔

وفاقی وزیر نے اسلام آباد میں انسٹیٹوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز سے خطاب کرتے ہوئے کہا "امریکی طویل عرصے سے ہمارے دوست ہیں مگر ان کا قابل اعتبار ہونا ایک الگ معاملہ ہے"۔

انہوں نے مزید کہا "امریکی خارجہ پالیسی ہمارے خطے کے لیے تباہ کن ہے"۔

انہوں نے جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "ہر بار جب بھی وہ یہاں آئے خطے کا جغرافیہ تبدیل ہو کر رہ گیا"۔

انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کو بہت محتاط رہنا ہوگا "ہم ابھی تک افغانستان میں مداخلت کی قیمت ادا کر رہے ہیں، اس خطے میں انتشار کی وجہ فرقہ واریت اور نسلی اختلافات ہیں"۔

انہوں نے کہا امریکا پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں پر 'مایوس' ہے جو کہ غیر منصفانہ سوچ ہے "آزادی کے بعد سے ہی ہمارے امریکا سے تعلقات قائم ہیں جس میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے"۔

وزیر دفاع نے کہا "حال ہی میں چیف آف آرمی اسٹاف نے امریکا کا ایک اہم دورہ کیا، وہ ایک اچھا دورہ تھا اور ضرورت اس بات کی ہے ہم تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے باہمی اعتماد قائم کریں جو کہ ابھی سو فیصد نہیں"۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے اسلام آباد نے واشنگٹن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی۔

انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کے حالیہ بیان کا بھی ذکر کیا جس میں قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے مقاصد کو "بہت پریشان کن" قرار دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا "اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قربانیوں کے باوجود امریکی ابھی بھی ہم پر مکمل اعتبار نہیں کررہے، یہ افسوسناک ہے مگر یہ واضح ہونا چاہئے کہ پاکستان کے قومی مفادات ہماری نظر میں سب سے اہم ہیں"۔

خواجہ آصف نے کہا کہ داعش شام کی حکومت کے لیے لڑائی میں اٹھی تھی اور اب دنیا اسے دہشت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے، ہم اسے خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اثر سمجھ سکتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل جو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں، خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی کے نئے شکار ہیں۔

اپنے خطاب کے دوران خواجہ آصف نے یہ بات واضح کی کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ ان کے اپنے خیالات ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ حکومتی پالیسی کی عکاسی کرتے ہوں، مگر جس طریقے سے انہوں نے اپنے نکات کو پیش کیا ان کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی اور عالمی طاقت سے اتحاد کے لیے کیس تیار کر رہے ہوں کوئی ایسی طاقت جو بے اعتبار امریکا جیسی نہ ہو۔

خطے کی طاقتیں

وفاقی وزیر نے کہا کہ دنیا میں واحد سپرپاور رہ جانے سے عالمی عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے، کئی طاقتی نظام طاقت کے عالمی توازن کے لیے بہترین ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس اور چین خطے کی دو بڑی طاقتیں ہیں "ہمیں خطے کے مسائل کا حل باہر جا کر نہیں بلکہ اندر رہ کر تلاش کرنا چاہئے"۔

انہوں نے روس کو "ابھرتی ہوئی سپرپاور" قرار دیا جو کہ پابندیوں کے باوجود اقتصادی طور پر بھی ابھر رہی ہے" اس خطے میں ہونے کے باعث پاکستان کو روس سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہئے"۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے حال ہی میں روس کے ساتھ انتہائی اہم معاہدہ کیا ہے، جس سے ہمیں اس سے اسلحہ خریدنے کا موقع ملے گا اور اسے انسداد دہشتگردی آپریشنز مٰں استعمال کیا جائے گا۔

ان کے بقول "پاکستان کو اپنے قومی سیکیورٹی مقاصد کو دیکھنا چاہئے، ہم اپنے پڑوسیوں، خطے کے ممالک اور بڑی طاقتوں کو دشمن بنانا نہیں چاہتے۔

وفاقی وزیر نے کہا "پاکستان نے اسی کی دہائی میں مداخلت کی جو کہ پراکسی جنگ سے بھی بڑھ کر تھی اور پاکستان بطور ایک قوم اب تک اس کی قیمت چکا رہا ہے"۔

انہوں نے کہا "وزیراعظم نے پاکستان کی جانب سے افغان امور میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے، گزشتہ دو یا تین ہفتوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ آرمی چیف افغانستان گئے اور افغان صدر نے پاکستان کا دورہ کیا، وزیراعظم نے اشرف غنی کو کہا کہ ہم تعلقات کے نئے دور کا آغاز چاہتے ہیں جس کا مہمان صدر نے مثبت جواب دیا"۔

ان کا کہنا تھا "افغانستان میں قیام امن کے بغیر پاکستان میں بھی امن ممکن نہیں اور قومی سیکیورٹی کے حوالے سے افغانستان کی صورتحال ہمارے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے"۔

ہندوستان

ہندوستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا "پاکستان کی قیام امن کی خواہش کو پڑوسی ملک ہماری کمزوری سمجھتا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے"۔

انہوں نے کہا "جب وزیراعظم نواز شریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیا، آغاز میں تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران سرحدی صورتحال نے حالات کو بگاڑا ہے"۔

کشمیری رہنماﺅں سے پاکستانی سفارتکاروں کی ملاقات پر ہندوستان کے سخت ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا "یہ ردعمل ضرورت سے زیادہ اور امن عمل کے لیے ایک دھچکا تھا"۔

اس ملاقات کے بعد ہندوستان نے پاکستان سے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات منسوخ کردیئے تھے جسے خواجہ آصف نے "دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ قرار دیا"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں