واشنگٹن: امریکا نے کہا ہے کہ وہ اگر ملا عمر اور دیگر طالبان رہنما امریکا کے لیے براہ راست خطرہ نہ بنے تو آئندہ سال دو جنوری کے بعد امریکی فوج افغانستان میں ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔

امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون ریئر ایڈمرل جان کربی نے واشنگٹن میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا رکن ہونے کا یہ مطلب نہیں امریکا صرف اس بنیاد پر ان کے خلاف آپریشن کر دے۔

تاہم اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ جو لڑائی کریں گے انہیں ہرگز نہیں چھوڑا جائے گا۔

ریئر ایڈمرل کربی نے کہا کہ ہم اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ جو بھی طالبان اراکین ہمارے یا ہمارے افغان ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے وہ خود ہماری کارروائی کے دائرہ کار میں آجاتا ہے۔

گزشتہ جمعے امریکی صدر بارک اوباما نے سال کی اختتامی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ 2014 کے اختتام پر افغانستان میں امریکا کی زیر قیادت جنگ کے خاتمے کے عہد پر قائم ہیں۔

اوباما نے کہا تھا کہ دو ہفتے سے بھی کم مدت میں ہمارا افغانستان میں 13 سال سے زائد مدت سے جاری مشن ختم ہو جائے گا۔

لیکن امریکی صدر بارک اوباما نے امریکا کے لیے براہ راست خطرہ بننے یا افغان افواج کے لیے بڑا خطرے بننے کی صورت میں اپنی افواج کو شدت پسندوں کے خلاف کارروئی کی مکمل اجازت دی۔

پنٹاگون میں بریفنگ کے دوران صحافیوں نے جان کربی سے امریکی پالیسی مزید بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سوال کیا کہ کیا امریکی افواج ماضی کی طرح 2014 کے بعد بھی ملا عمر کا پیچھا کریں گی؟۔

ملا عمر 1996 سے 2001 تک افغان ریاست کے سربراہ رہے اور 2001 میں امریکا نے انہیں بے دخل کردیا تھا۔

اس کے بعد سے اسامہ بن لادن اور دیگر دہشت گردوں کی رہنمائی کرنے کے جرم ملا عمر امریکا کی مطلوب ترین افراد کی فہرست میں موجود ہیں اور ان کو پکڑوانے میں مدد کرنے پر 10 ملین ڈالر انعام بھی رکھا گیا تھا۔

صحافی نے سوال کیا کہ کیا ملا عمر اور اس فہرست میں شامل دیگر افراد سے ماضی میں کیے گئے اقدامات پر جواب طلبی نہیں کی جائے گی؟۔

’مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سوال کا جواب دے سکوں گا یا نہیں، طالبان کے تسلیم شدہ رہنما کے طور پر جیسا وہ ابھی بھی ہمارے اور ہمارے اتحادیوں خطرہ بنے ہوئے ہیں لہٰذا ان کے خلاف امریکی فوجی کارروائی جاری رہے گیا’۔

انہوں نے کہا کہ میں اس سوال کا اس سے زیادہ آسان جواب نہیں دے سکوں گا۔

پنٹاگون کے ترجمان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دو جولائی کے بعد افغانستان میں امریکی پالیسی تبدیل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ لیکن دو جنوری کے بعد پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں ہو جائیں گے اور محض طالبان کا رکن ہونے پر کسی کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔

اس کے جواب میں ایک صحافی سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دو جنوری کے آغاز کے بعد یہ افغانستان پر منحصر ہو گا کہ وہ ملا عمر جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے یا نہیں؟

جس پر جان کربی نے ان کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات درست ہے یہاں تک کہ وہ ہمارے لیے براہ راست خطرہ نہ بنیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں