• KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C

جسے پارٹی اور ریاست دونوں نے استعمال کیا

شائع May 12, 2015

18 مارچ کو نیوز چینلز پر نشر ہونے والے ایک وڈیو بیان میں صولت علی خان عرف صولت مرزا نے متحدہ قومی موومنٹ پر الزام عائد کیا تھا کہ ’’وہ اپنے کارکنوں کو ٹشو پیپر کی مانند استعمال کرتی ہے، جس طرح کہ انہیں استعمال کیا گیا تھا۔‘‘

جب وہ یہ بیان دے رہے تھے، تو شاید ان کے ذہن میں تصور بھی نہ ہوگا کہ جو لوگ ان کا یہ وڈیو بیان ریکارڈ کررہے ہیں، ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے، جو ان کے بقول ان کی پارٹی نے ان کے ساتھ کیا تھا۔

صولت مرزا کو آج علی الصبح بلوچستان کی مچھ جیل میں پھانسی دے دی گئی، اس سے قبل 18 مارچ کو ان کے وڈیو بیان جاری ہونے کے بعد دو مرتبہ ان کی پھانسی کے حکم پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔

ان کے خاندان کے افراد کے سمیت زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے ’’چونکا دینے والے انکشافات‘‘ کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کے قتل کا حکم ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے دیا تھا، سامنے آنے کے بعد ریاست ان کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردے گی۔

لیکن حکومت اور اربابِ اختیار نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دینے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اس معاملے کی تفتیش کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صولت مرزا کے انکشافات کوئی ’’قابلِ گرفت شواہد یا ثبوت‘‘ قائم نہیں کرتے، اور بالواسطہ طور پر حکام کو سفارش کی کہ صولت مرزا کی پھانسی کو ملتوی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

یہاں تک کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سزائے موت کے منتظر قیدی کی مچھ جیل میں پھانسی سے چند گھنٹے قبل ڈیتھ سیل میں ایک بیان کی ریکارڈنگ کے قانونی حیثیت پر بھی سوال نہیں اُٹھایا۔

صولت مرزا کی زندگی اور جب وہ ایم کیو ایم کے ساتھ منسلک تھے تو ان کے ’’کام‘‘ کے بارے میں بہت مختصر معلومات میسر آسکی ہیں۔

وہ نارتھ ناظم آباد کے بلاک ایس میں مقیم تھے اور گھر کے قریب واقع پاکستان شپ اونرز کالج میں زیرِتعلیم تھے۔

چالیس سے زائد برس دنیا میں گزارنے والے صولت مرزا نے تقریباً 17 برس جیل میں گزارے، انہیں 1998ء میں گرفتار کیا گیا تھا، وہ 1995ء تک ایم کیو ایم میں معروف شخصیت نہیں تھے۔

ایم کیو ایم کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیان کیا ’’صولت مرزا کو اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا، جب فہیم فاروقی (جن کو فہیم کمانڈو کے نام سے شہرت ملی) کو گرفتار کیا گیا اور انہوں نے صولت مرزا کو اپنا دایاں بازو قرار دیا، تو ان کا نام لوگوں کے سامنے آیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ صولت مرزا کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے، اور اپنے علاقے میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اس وقت وہ ایم کیو ایم کے محض حمایتی تھے، اس کے کارکن نہیں تھے۔ جب ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ کہلاتی تھی۔

لیکن ان کی زندگی میں ایک انقلابی موڑ اس وقت آیا، جب انہیں 1993ء میں گرفتار کیا گیا اور پولیس کی حراست میں ان پر تشدد ہوا تو ان کے اندر زبردست تبدیلی پیدا ہوئی۔

جلد ہی صولت مرزا کا نام کراچی میں دہشت کی علامت بن گیا، اور1995-96ء کے دوران ہونے والے پولیس اسٹیشن پر حملے، پولیس اہلکاروں کے قتل، راکٹ حملے سمیت دہشت گردی کے تقریباً ہر ایک مقدمات کو پولیس نے ان کے نام پر ڈال دیا۔

بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت میں کیے گئے کراچی آپریشن کے دوران وہ مبینہ طور پر ملک سے فرار ہوگئے۔ جب اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو نومبر 1996ء میں برطرف کردیا اور اسمبلیاں تحلیل کردیں تو اس کے بعد وہ وطن واپس آئے۔

پانچ جولائی 1997ء کو اس وقت کے ای ایس سی کے مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اور ان کے ایک محافظ کو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ دسمبر 1998ء میں پولیس نے کراچی ایئرپورٹ پر صولت مرزا کو گرفتار کرلیا، وہ بینکاک سےیہاں پہنچے تھے۔

انہیں شاہد حامد قتل کیس میں 1999ء کے دوران سزائے موت سنائی گئی، اور سزا کے خلاف ان کی اپیلیں اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے مسترد کردی گئیں تھیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Ali Aamir May 12, 2015 09:24am
ریاست کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس ڈرامے بازی کی بنا پر ان کے اہل خانہ سخت مشکل میں آ گئے ہیں۔
خان May 12, 2015 02:40pm
صولت مرزا عالم شباب میں بہت خوبصورت نوجوان تھا۔ اور شاید زہین بھی تھا ۔ اگر کراۓ کا قاتل نہ بنتا تو شاید ڈاکٹر بن جاتا اور معاشرے کا کارآمد فرد ہوتا۔ اس کی جوانی کی تصویروں کی وجہ سے شاید کچھ اینکر اس سے بہت ہمدردی جتاتے ہیں۔ لیکن مجھے اس سے کوئ ہمدردی نہیں۔ یہ ایک بے رحم قاتل کے سوا اور کچھ نہیں۔
خان May 12, 2015 02:41pm
یہ سترہ سال جیل میں رہا اور اس کی بیوی نے آخری وقت تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس کو بچانے کی کوشش کی۔ آج کل کون کسی کیلۓ اتنی جدوجہد کرتا ہے؟ جب تک اس کو امید تھی کہ اس کی پشت پناہی کرنے والے لوگ اس کو پھانسی کے پھندے سے بچا لیں گے اس کے ٹھاٹھ ہی نرالے تھے۔ یہ جیل کے عملے کو دھمکیاں دیتا تھا۔ امید ہے کہ اس کے جیسے اور کراۓ کے قاتل اس کے انجام سے عبرت پکڑیں گے۔
Saeed Khan May 12, 2015 03:08pm
What you sow, so shall you reap.... The trainers, sponsors & advisers should be hanged too.....
عثمان احمد May 12, 2015 03:43pm
صولت مرزا کو عدالت نے قتل کرنے پر سزائے موت سنائی۔ انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ سزا پر عمل درآمد ہو، جو کہ ہوا۔ حکومت کا سزا کے معاملے میں دخل اندازی کرنا درست نہیں۔ یہ عدالت کا کام ہے۔
Rehan May 12, 2015 09:42pm
Saza Bhi gareeb ko hi mili Asal mujhrim kha gye Wo Aaj Bhi power full hain.
Malik USA May 12, 2015 11:56pm
Excellent Analysis. This message of every one and specially for youth not to be member for their dirty game. Every political party (Not a single one) and some of Naam Nihad Islamic Parties are using the youth for their agenda. Saulat Mirza ek bahut bara Phaigam de gaya. Altogether more than hundred people were hanged but none of them had courage to give a message for youth. This was only Saulat Mirza, I salute you Mirza.
Majid May 13, 2015 09:02am
I agree establish and MQM both used this guy for their own agenda. Saulat Mirza hanged only because he does have strong political back or he is not the son of any MNA/MPA or from a wadara family. All these capital punishment only for poor peoples I understand they did the crime and they should get punishment? Every part have target killer how many they arrested??? not a single person got capital punishment....in Pkistan punishment is only for poor ... rich can do anything there is no punishment for them....

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025