خانہ بدوشی: فطرت سے عشق کا منفرد انداز

خانہ بدوشی: فطرت سے عشق کا منفرد انداز

ابوبکر شیخ

کونج بھی عجیب پرندہ ہے۔ جاڑوں کے آنے کی نوید بھی دیتا ہے، اور جاڑوں کے گذر جانے کی خبر بھی۔ شہروں کے شور اور بہت ساری کثافتوں سے دور اکتوبر کے صاف ستھرے دھلے ہوئے نیلے امبر پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں جب کونجیں اڑتی شمال مشرق کی طرف جاتی ہیں تو یہ جاڑوں کے آنے کا اعلان ہوتا ہے۔ ساتھ میں اور بھی ہجرت کرنے والے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ انڈس ڈیلٹا کی جھیلوں پر اترنے لگتے ہیں۔ ان کی آمد کی خوشی میں گھاس پھوس، سرکنڈے، اور پانی کی دوسری گھاسوں اور جھاڑیوں کا رنگ گہرا ہرا ہوجاتا ہے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے سردیاں گزر جاتی ہیں۔ راتیں چھوٹی، اور دن لمبے اور گرم ہوتے جاتے ہیں۔ مارچ کے آتے آتے ہجرت کرنے والے پرندے جھیلوں کو ویران کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔ تب مارچ کی آخر میں کونجیں واپس جانے کے لیے اسی نیلے آسمان پر سے جاڑے کے اختتام کا اعلان کرتی ہوئی لمبی قطاروں میں لوٹ جاتی ہیں، اور تب نیچے زمین پر خانہ بدوشوں کے قافلے جھیلوں کے کناروں کی طرف اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔

میں نے خانہ بدوشی کے سحر کے متعلق بہت سوچا، لیکن جس طرح سمندر کی لہروں اور کناروں کے عشق کا پتہ نہ لگا سکا، بالکل اسی طرح اس خانہ بدوشی کے جنون کا کنارا بھی مجھے دکھائی نہ دیا۔ کہتے ہیں کہ انسان کو کیا چاہیے؟ ایک گھر، گھر کا آنگن، آنگن میں اگا ہوا نیم کا درخت، اور ایک منڈیر جس پر کوا بیٹھ کر مہمانوں کی آمد کی نوید دے۔ پر ان خانہ بدوشوں کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے، نہ آنگن، اور نہ کوئی ٹوٹی پھوٹی سی منڈیر۔ وہ جس جھیل کے کنارے رہتے ہیں وہ ہی ان کی دنیا ہوتی ہے۔

سندھ کی ساحلی پٹی، جس کے اپنے الگ طبعی حالات ہیں، 250 کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ دریاء سندھ اپنا 3200 کلومیٹر کا سفر یہیں آکر ختم کرتا ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ بندرگاہوں کے حوالہ سے مشہور تھا۔ اس کے علاوہ جنگلات، جنگلی حیات، اور جھیلوں کی وجہ سے بھی یہ ڈیلٹائی پٹی جانی جاتی ہے۔ انڈس ڈیلٹا میں 23 Creeks (کھاڑیاں، وہ نالے جن سے دریا کا پانی سمندر میں گرتا ہے) ہیں۔ چونکہ یہ دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں جانے کے راستے رہے ہیں، اس لیے ان میں پانی وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے جنگلات اورجھیلوں کا ہونا ایک فطری عمل تھا۔

1999 کے سمندری طوفان Cyclone 2A-1999 سے پہلے اس ساحلی پٹی میں چھوٹی بڑی جھیلوں کا جال بچھا ہوا تھا، لیکن اس سائیکلون نے اس ساحلی پٹی کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

مقامی این جی او میں قدرتی آفات کے حوالے سے کام کرنے والے فدا سومرو نے بتایا کہ "ڈیلٹا کی اس ساحلی پٹی پر طوفان اور سائیکلون آتے رہتے ہیں، پر 1999 میں آنے والے اس سائیکلون نے بہت کچھ برباد کردیا۔ چھتیس گھنٹے چلنے والے اس سائیکلون نے 450 ملی میٹر تک پانی برسایا، جبکہ ہوا کی رفتار 270 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔"

اس سائیکلون کے بعد بہت ساری چھوٹی چھوٹی جھیلیں ریت اور مٹی سے بھر جانے کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں، یہاں تک کہ بدین کی دو مشہور جھیلیں 'نریڑی' اور 'جھبو' (یہ دونوں رامسر سائیٹ کا اعزاز رکھنے والی جھیلیں ہیں) اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ جھیلوں کا مرجانا کسی بھی علاقے کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتا، کیونکہ یہ زندگی کی امین ہوتی ہیں۔ یہ فقط پانی مانگتی ہیں۔ اس کے بدلے میں یہ انسان کو جو دیتی ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس ڈیلٹائی خطے کے بہت سارے ایسے خاندان ہیں، جو نسلوں سے ان جھیلوں کے کناروں پر رہ کر اپنی روزی روٹی کماتے آئے ہیں۔

ہم یہاں ذکر 'ہاجراں' کا کریں گے جو 2005 میں مجھے ایک ریسرچ اسٹڈی کے دوران 'جھبو' جھیل پر ملی تھی۔ تب وہ سات آٹھ برس کی ایک کمزور سی بچی تھی، پر میں نے اس کی بہت ساری تصویریں بنا ڈالیں۔ ہاجران ماں، باپ اور دو بھائیوں والے اپنے چھوٹے سے خاندان میں سب سے چھوٹی ہے۔

ہاجراں اپنی ماں مارہیت کے ساتھ (2010)
ہاجراں اپنی ماں مارہیت کے ساتھ (2010)

اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو پتہ چلے گا کہ انسان اور کناروں کا آپس میں کتنا قدیم اور مقدس رشتہ ہے، اور انسان نے خود اس رشتے کو توڑنے کی بڑی کوشش کی ہے۔ ایریگیشن سسٹم میں میٹھے پانی کی کمی، قدرتی آفات کی بربادی کے بعد ان کی نئے سرے سے بحالی پر دھیان نہ دینا، قدرتی وسائل جیسے جھیلوں، فشنگ گراؤنڈز میں شوگر ملز اور دیگر صنعتوں کے زہریلے کیمیکلز کا اخراج، سمندر میں شہروں کے گندے نالوں اور صنعتی کا اخراج، جتنے بھی وسائل بچے ہیں، ہم کوشش میں ہیں کہ ان کو برباد کر کے ہی چھوڑنا ہے۔ اب دانستہ ہو یا نادانستہ، پر یہ سب کچھ ہو ضرور رہا ہے۔

2010 میں ایک عجیب اتفاق ہوا۔ ایک اسٹڈی کے دوران 'ہاجراں' مجھے اپنے خاندان کے ساتھ 'نریڑی' جھیل کے کنارے دوبارہ ملی۔ وہ ویسی ہی تھی، دھان پان سی، پانچ برس میں اس خاندان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بس 'مارہیت' جو، ہاجراں کی ماں تھی، وہ کچھ زیادہ کمزور ہوگئی تھی۔ اس کے باپ 'پیر بخش' کے بالوں میں کچھ زیادہ سفیدی آگئی تھی اور ساتھ میں چہرے کی لکیریں کچھ زیادہ گہری ہوگئی تھیں۔ شام کا وقت تھا، سارے خاندان نے چائے پینے کا کہا، ہم نے چائے پی، اور جاتے ہوئے میں نے ہاجراں کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا، بیٹا کھایا پیا کرو، ہڈیوں کا پنجر لگتی ہو، ہاجراں مسکرائی اور سر اثبات میں ہلایا۔

اب پھر یہ خاندان مجھے گونگڑو (یہ دریائے سندھ کی قدیم برانچ ہے، سومرو بادشاہوں کی حکومت کا مرکزی شہر 'شاہ کپور' یہیں آباد تھا) کے کناروں پر ملا۔ زمین میں چار لکڑیاں گڑی ہوئی، اور ان کے سہارے پر ہلکی سرکنڈوں اور دوسری گھاس کی چھت۔ اب اسے چھت کہنا چاہیے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ لکڑیاں کیونکہ باریک اور پانچ فٹ سے بڑی نہیں ہوتیں، اس لیے دن میں دھوپ سے بچنے کی لیے جب اس میں داخل ہوتے ہیں، تو جھک کر داخل ہونا پڑتا ہے، جیسے شہنشاہ کا دربار ہو، بس کورنش نہیں بجا لانی پڑتی۔

دوپہر کو سرخ چاول کے آٹے کی روٹی اس خس کی جھونپڑی کے آگے تپتی دھوپ میں پکتی ہے۔ چاول کی گرم روٹی بڑی خستہ اور خوشبودار ہوتی ہے، سالن نہیں ہوتا، اس لیے ایسے ہی کھا لیتے ہیں کہ بس پیٹ کی آگ ہی تو بجھانی ہے۔

جھیلوں کے کناروں کا سحر میں نے ان خانہ بدوشوں کی آنکھوں میں ٹھنڈی چاندنی جیسا پرسحر دیکھا ہے۔ 'داندھل'، 'پارہیڑی'، 'بھڈائی'، 'ونگائی'، 'بوہریا' اور بہت سارے ایسے قبیلے ہیں جو 'پن' (پھوس، Water Reeds) سے 'چھپر' بناتے ہیں۔

چھپر کو مقامی زبان میں 'پکھے' کہتے ہیں۔ لاکھوں خاندان جو ساحلی پٹی پر اپنے گھر بناتے ہیں، ان گھروں کی چھت، پھوس کے ان چھپروں سے بنائی جاتی ہے۔ ان سے بنی چھت ہلکی ہوتی ہے، دھوپ سے گرم نہیں ہوتی، بارشیں اگر زیادہ ہوجائیں تو چھپر میں استعمال کی گئی پھوس زیادہ پانی کی وجہ سے پھول کر ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہے جس سے چھت ٹپکتی نہیں ہے۔ چھتیں ہلکی ہوتی ہیں، اس لیے ان کے گرنے کا خطرہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، اور زلزلے کی صورت میں یہ چھت اگر گر بھی جائے تو اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔

میں نے پیر بخش سے پوچھا کہ چھپر کیسے بناتے ہیں؟ پیر بخش نے بتایا کہ "یہ جب پک کر تیار ہوجاتی ہے تو ہم کو پتہ چل جاتا ہے، پھر ہم اس کو جھیل میں جا کر تیز اوزار سے کاٹتے ہیں، اور باہر دھوپ میں کچھ دن سوکھنے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ پھر اس میں ایک نرم سی لکڑی چھپی ہوتی ہے، جس کو ہم 'کانی' کہتے ہیں، بنیادی طور پر ان 'کانیوں' کو ملا کر، سی کر جو چھاؤں کی چادر بُنتے ہیں، اس کو 'چھپر' (پکھا) کہتے ہیں۔

"پھر ان 'کانیوں' کو چھیل کر صاف کر کے کچھ دن کے لیے دھوپ میں رکھ دیتے ہیں، پھر سائز کے مطابق ان 'کانیوں' کو الگ کرتے ہیں۔ ان چھپروں کو باندھنے کے لیے مقامی گھاس، جس کو ہم 'منج' کہتے ہیں، کاٹ کر، سکھا کر، اور پھر کوٹ کر ان سے رسیاں بناتے ہیں، اور جو پھوس چھیلتے ہیں اس سے بھی رسی بناتے ہیں۔ یہ رسیاں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ تیز دھوپ اور سمندر کی نمک سے بھری ہوا بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔"

"یہ ایک چھپر بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟" پیر بخش نے رسی بناتے ہوئے جواب دیا: "وہ سائیز پر منحصر ہوتا ہے، عام طور پر چھپر نو ہاتھ (ایک ہاتھ مطلب دو فٹ) کا ہوتا ہے۔ اگر رسیاں بنی ہوئی ہوں، کانیاں وغیرہ تیار ہوں تو ایک دن میں ایک چھپر بن جاتا ہے۔ ہم بیس ہاتھ سے بھی بڑے چھپر بنا سکتے ہیں۔"

پھر جب چلچلاتی دھوپ میں بغیر کسی چھپر اور چھاؤں کے یہ دوسروں کے لیے چھاؤں بُننا شروع کرتے ہیں، تو انسانی حقوق ان کے پسینے میں قطرہ قطرہ ہو کر بہتے جاتے ہیں۔ پیر بخش نے تپتی دھوپ کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر کر کہا "جیئن کارن جیڈیون، موں وڈا وس کیام" (زندگی کے تپتے صحراؤں کو پار تو کرنا ہے، پر مشکل بہت ہیں یہ راہیں۔"

میں نے پیر بخش کی بیوی اور ہاجراں کی ماں سے جب ایک جگہ گھر بسا کر بیٹھنے کا کہا تو تو اس نے میری بات کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ "چار دیواری میں تو ہمارا سانس گھٹ جائے گا۔ نہیں ادا، ہمارے لیے یہ ٹھیک ہے، جہاں گھاس پھوس کی خوشبو نہ آئے وہاں کیا رہنا۔"

میں نے ان کے ساتھ آدھا دن گزارا، ان کی مشکل ترین زندگی دیکھی، جہاں پینے کے پانی سے لے کر کھانے اور رہنے تک، کوئی بھی چیز صحت و صفائی کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی، پھر بھی یہ نسل در نسل جیے جا رہے ہیں۔ تپتی دھوپ، بارشوں، طوفانوں، اور کڑکڑاتی سردیوں میں جھیلوں کے ان کناروں پر بیوفا محبتوں کی طرح کچھ مہینوں کے لیے گھر آباد ہوتے ہیں، شادیاں ہوتی ہیں، زندگیاں جنم لیتی ہیں، جنازے اٹھتے ہیں، اور پھر ایک نئے ٹھکانے کی تلاش میں مضبوط اعصاب کے یہ لوگ اپنا گھر اپنے کندھوں پر اٹھائے کہیں اور نکل جاتے ہیں۔

اس سارے وقت میں مجھے ہاجراں نظر نہیں آئی۔ جب میں نے اس کے باپ سے پوچھا تو پتہ لگا کہ کچھ ماہ پہلے اس کی شادی ہوگئی۔ میں نے سوچا کہ اتنی چھوٹی عمر میں؟ پیر بخش سے اس کی عمر پوچھی تو اس نے ایک اندازے کے مطابق سولہ یا سترہ برس بتائی۔ ہم شہری لوگوں کے لیے یہ عمر کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے، لیکن زندگی کی تلخیاں ان کو کھیلنے کودنے کی اجازت نہیں دیتیں، اور یوں ان کی شادیاں عموماً اسی عمر میں کر دی جاتی ہیں۔

ان چھپر بُننے سے اتنے زیادہ پیسے نہیں ملتے کہ ان کو جمع کر کے اپنی اولاد کی دھوم دھام سے شادی کی جا سکے۔ یہاں ان بے آنگن گھروں سے جب بیٹی بیاہی جاتی ہے، تو لوہے کی ایک پیٹی میں کچھ جوڑے کپڑوں کے، کچھ چپلیں، بازار سے لیے ہوئے کچھ نقلی زیور، کچھ گہرے رنگوں میں نہائی ہوئی چوڑیاں، ہو گیا جہیز مکمل اور ہو گئی بیٹی کی رخصتی۔ بیٹی جہاں بیاہ کر جائے گی، وہ گھر بھی اکثر آنگنوں کے سکھ سے نا آشنا ہی ہوں گے۔

ہم آرامدہ اور پرسکون کمروں میں نرم بستروں پر لیٹے ہیں، لیکن نیند کی گولی کھا کر سوتے ہیں، دن میں چار مرتبہ بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں، اور ساتھ میں شوگر کے بڑھ جانے اور کیلوریز کا ذکر بھی چل رہا ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہسپتالوں سے کوسوں دور ایسے ویرانوں میں رہتے ہیں جہاں گرمیوں میں سانپ اور بچھو رات کو ایسے گھمومتے ہیں جیسے مٹرگشت کرنے کو نکلے ہوں۔ پھر بھی یہ لوگ جیے جاتے ہیں۔

یہاں 'جتنا ہے وہ بہت ہے' کے اصول پر زندگی گذرتی ہے، اور ہنسی خوشی گذرتی ہے۔ میں نے ان سے باتیں کر کے یہ محسوس کیا کہ یہ لوگ زندگی سے شکایتیں بہت ہی کم کرتے ہیں، اس لیے زندگی ان کے ذہنوں میں اسٹریس کی خاردار جھاڑیاں نہیں اگاتی۔ یہ سب ان جھیلوں کے کناروں سے عشق کی وجہ سے ہوا ہے، یہ لوگ فطرت سے عشق کرتے ہیں، ان کے نصیبوں میں آنگن کا سکھ نہ ہو تو نہ سہی، پر اور بہت سارے سکھ ہیں جن سے ہم اور آپ ناآشنا ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔