لاہور: تقریباً ایک لاکھ پاکستانیوں کو ان کی ’شہریت‘ سے محروم کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے یا تو ان پاکستانیوں کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کو بلاک کردیا ہے یا پھر انہیں ’’مشتبہ (غیرملکی)‘‘ قراردیتے ہوئے نئے شناختی کارڈز کے اجراء سے انکار کردیا ہے۔

نادرا نے شناختی کارڈز حامل افراد کے درمیان ’غیرملکیوں‘ کی شناخت کا کام تیز تر کردیا ہے۔

نادرا کے ترجمان فائق علی چھاچھڑ نے ڈان کو بتایا کہ ’’نادرا باریک بینی کے ساتھ ’’مشتبہ شناختی کارڈز‘‘ کی جانچ پڑتال کررہا ہے، اور اب تک اس طرح کے تقریباً ایک لاکھ شناختی کارڈز کو بلاک کردیا گیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’بلاک کیے گئے شناختی کارڈز کے حامل افراد پاکستانی نہیں ہیں، ان میں سے زیادہ تر افغان ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’نادرا کے پاس ’غلطی سے پاک‘ نظام موجود ہے، جس کے ذریعے مشکوک شناختی کارڈز بلاک کیے جارہے ہیں۔‘‘

تاہم نہ تو فائق علی چھاچھڑ نے اور نہ ہی نادرا کے چیئرمین عثمان مبین اس بات کی وضاحت کرسکے، کہ ان ’غیرملکیوں‘ نے آخر کس طرح شناختی کارڈز حاصل کرلیے تھے۔

نادرا کے ایک ذرائع نے بتایا ’’نادرا ایسے لوگوں کو شناختی کارڈز اجراء یا تجدید نہیں کرسکتا، جن کے پاس پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو۔نادرا کے پاس موجود کسی ریکارڈ کے بغیر (مثلاً خاندان کا ریکارڈ) نادرا کس طرح غیرملکی کو شناختی کارڈ جاری کرسکتا ہے؟‘‘

ہر صوبے میں مشکوک شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کے لیے وزارتِ داخلہ کی ہدایات پر حال ہی میں ایک مشترکہ توثیقی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’یہ کمیٹی مشکوک شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال اور توثیق کرے گی، تاکہ کوئی غیرملکی یا غیرقانونی طور پر نقلِ مکانی کرنے والے جعلی دستاویزات کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈز حاصل کرکے بے جا مراعات سے لطف اندوز نہ ہوسکیں۔‘‘

ایسے لوگ جو اپنی ’پاکستانی شہریت‘ کھوچکے ہیں، ان کی اچھی خاصی تعداد نے اسی دوران ڈان کو بتایا کہ وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ آخر کس طرح نادرا ان کے پاکستانی ہونے کے ثبوت دیکھنے کے بعد ان کے شناختی کارڈز کو بلاک کرسکتا ہے۔

ضلع چکوال کے علاقے چوا سیداں شاہ کے رہائشی دین محمد نے ڈان کو بتایا کہ ’’میرا شناختی کارڈ (37202-4236548) جس کی معیاد 31 مئی 2017 کو ختم ہونی تھی، بلاک کردیا گیا ہے۔ نادرا آفس نے مجھے بتایا کہ میں پاکستانی نہیں ہوں، اس لیے میرا شناختی کارڈ بلاک کردیا گیا ہے۔

دین محمد کے بارہ بچے ہیں، اور ان میں سے جو 18 برس عمر کے ہوگئےہیں، ان کے شناختی کارڈز بھی اسی بنیاد پر مسترد کردیے گئے ہیں۔

اسی طرح محمد عبداللہ (37202-3383403-7)، تاج بی بی (37202-2250924-5) اور عبدالستار (37202-2719212-3) کے شناختی کارڈز جن کی معیاد بالترتیب 2017ء، 2015ء اور 2017ء تک ختم ہونی تھی، کو بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔

ڈان نے جب ان کے شناختی کارڈز کی حیثیت کے بارے میں نادرا سے معلومات حاصل کیں تو اس کی جانب سے بتایا گیا کہ ’’ان شناختی کارڈز کے حامل افراد پاکستانی نہیں ہیں، یہ غیرقوم کے لوگ ہیں۔‘‘

چکوال کے معصوم شاہ (37202-5042733-1) کو نادرا نے ’مشتبہ‘ قرار دے دیا ہے۔

معصوم شاہ نے کہا کہ انہوں نے نادرا کے عہدے دار کو پنجاب کے ضلع جھنگ میں اپنی خاندان کی بنیادوں کا ثبوت پیش کیا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

انہوں نے بتایا ’’نادرا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جو ہمیں بتائے کہ آخر ہمارے شناختی کارڈز کیوں بلاک کیے گئے ہیں۔ اگر ہم پاکستانی نہیں تھے تو نادرا نے ہمیں شناختی کارڈ اور اس کے بعد کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کیوں جاری کیا؟ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ ہم پاکستانی تھے۔‘‘

معصوم شاہ کے مطابق نادرا کے عہدے داروں کا خیال ہے کہ وہ اور ان کے خاندان کے لوگ افغانی ہیں۔

تمام متاثرہ لوگوں کی شکایت ہے کہ وہ قانونی شناختی کارڈ کے بغیر نہ تو کوئی جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروبار کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے شناختی کارڈز کے بغیر میٹرک یا دوسرے امتحانات میں شریک نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ہے۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے یہ مسئلہ متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کا عزم کیا ہے۔ انہوں نےپختونوں کو ’’افغان مہاجرین‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کے اقدام پر وزارت داخلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

محمود خان اچکزئی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ریاست کس طرح ان لوگوں کی گرفتاری کا جواز پیش کرسکتی ہے، جن کے آباؤ اجداد نے افغانستان سے پاکستان نقلِ مکانی کی تھی؟ ایسے علاقے جہاں پختونوں کے آباؤاجداد برصغیر کی تقسیم وقت آباد ہوئے تھے، پولیس ان پختونوں کے شناختی کارڈز کو منسوخ کرکے ان کے شہری حقوق مسترد کرتے ہوئے بھتے کی رقم ادا کرنے کے لیے ناجائز دباؤ ڈال رہی ہے۔ ہمیں سیالکوٹ، اٹک، جھنگ اور یہاں تک کہ حیدرآباد میں رہنے والے پختونوں کی فون کالز موصول ہوئی ہیں، جو پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایت کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’میں ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں، جو 1900ء سے یہاں مقیم ہیں اور جن کے شناختی کارڈز نادرا نے منسوخ کردیے ہیں۔ ہماری پارٹی کا مؤقف یہ نہیں ہے کہ ریاست افغان پناہ گزینوں کو شہریت دے۔ لیکن اگر پختونوں کے افغانی نسب کی بنیاد پر ان سے امتیازی سلوک کیا گیا تو ہم ان کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘

محمود خان اچکزئی نے کہا ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ افغانستان کی نوجوان نسل میں سے نصف پاکستان میں بڑے ہوئے ہیں اور یہاں تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغان پناہ گزین یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے۔

اچکزئی نے کہا ’’کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کی تجدید کے عام ضروریات کے علاوہ تقسیم سے پہلے پاکستان میں آباد آباد پختونوں سے ان کے آباؤاجداد کی تفصیلات، ان کے نکاح نامے اور ان کی کاروباری سرگرمیوں کے ثبوت طلب کیے جاتے ہیں۔ یہ ناصرف امتیازی سلوک ہے، بلکہ اس سے پختونوں کے درمیان نفرت جنم لے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ نادرا کی جانب سے شروع کیے گئے قابلِ اعتراض اقدامات کے خلاف ان کی پارٹی ایک مہم شروع کرے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mohammad Aslam May 29, 2015 07:24pm
کئی ایسے واقعات ہیں جن میں نادرا کے بے لگام ملازمین نے صرف تلخ کلامی پر پاکستانی شہریوں کو مشکوک فارنر لکھ کر بے بس و لاچار کر دیا ہے، ان میں سے کم از کم 3کیسز ایسے ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر نہ صرف جانتا ہوں بلکہ تصدیق کر سکتا ہوں کہ وہ پاکستانی ہیں اور 2سال گزرنے کے بعد بھی انہیں شناختی کارڈ نہیں دیا جارہا جبکہ ان کے خاندان کا پورا ریکارڈ منگواکر چیک کیا جاچکا ہے، نادرا کا عملہ اب لوگوں کو شہریت بانٹنے لگا ہے، لوگوں سے پیسے لیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے ۔ ایک آپریشن ان کالی بھیڑوں کیخلاف بھی ہونا چاہیے جو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ غیر ملکیوں کو تو جاری کردیتے ہیں لیکن پاکستانی لوگ اپنے جائز حق سے محروم رکھے جاتے ہیں