انتخابات کے لیے اساتذہ کی ہی ڈیوٹی کیوں؟

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2015
ملک میں چاہے جتنی بار الیکشن کروا دیے جائیں، ملک اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہم اپنے اساتذہ کرام کی قدر نہیں کریں گے۔ — AFP/File
ملک میں چاہے جتنی بار الیکشن کروا دیے جائیں، ملک اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہم اپنے اساتذہ کرام کی قدر نہیں کریں گے۔ — AFP/File

کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں چھپا ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا یہ مقدس فریضہ واجب الا حترام اساتذہ کرام ادا کرتے ہیں۔ گرمیوں کی چُھٹیوں کے بعد یعنی 15 اگست کے بعد دسمبر تک تدریسی عمل اپنے عروج پر ہوتا ہے اور جنوری فروری میں امتحانی تیاری و ٹیسٹ کے بعد بورڈ/یونیورسٹی کے فارم بھجوائے جاتے ہیں۔

بڑے سرکاری کالجز میں ایک سیکشن عموماً 100 سے 150 طلباء پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پوسٹ گریجویٹ کلاسسز (مارننگ/ایوننگ) کے ایک ایک مضمون میں طالب علموں کی تعداد بھی 100 سے زیادہ ہوتی ہے۔

ایک پروفیسر دن میں 4 سے 6 پیریڈ پڑھاتا ہے۔ گویا روزانہ 7 سے 8 سو بچّے ایک پروفیسر صاحب سے فیض پاتے ہیں۔ ایک پروفیسر صاحب کی ایک دن کی غیر حاضری کا مطلب ہے سینکڑوں طالب علموں کی علم سے محرومی۔ اور اگر بہت سے اساتذہ کرام غیر حاضر ہو جائیں اور وہ بھی بہت سے دنوں (تین تین ماہ) کے لیے تو؟ اس حالت میں کتنا نقصان ہوگا، اس کا تذکرہ الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔

31 اکتوبر سے 3 دسمبر تک صوبہء پنجاب کے مختلف اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے جس کے لیے بہت سے اساتذہ کرام کی بطور ریٹرننگ افسران اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران مقامی و دیگر تحصیلوں میں ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں۔ 28 ستمبر سے تقریباً دسمبر 2015 تک، یعنی رواں تعلیمی سیشن ختم ہونے تک ان اساتذہ کرام سے ہزاروں طلبا و طالبات نہ صرف علم حاصل کرنے سے محروم رہیں گے بلکہ انتہائی بُرے انداز میں فیل بھی ہوں گے۔

ظاہر ہے کہ سرکاری کالجوں میں پڑھنے والے طلباء کی بڑی تعداد اتنی دولتمند نہیں ہوتی کہ وہ نجی ٹیوشنز کا خرچہ برداشت کر سکے، چنانچہ ایسے طلباء مکمل طور پر کالج کے اساتذہ پر منحصر ہوتے ہیں، اور انہیں جو توجہ وہاں ملتی ہے، وہی ان کی ذہنی آبیاری میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

اساتذہ کی غیر حاضری سے ہونے والے نقصان کو میں بڑھا چڑھا کر نہیں پیش کر رہا، بلکہ واقعاً اساتذہ کے نہ آنے سے جو نقصان ہوتا ہے، وہ ناقابلِ تلافی ہوتا ہے۔ استاد ہی کورس کو روانی سے لے کر چلتا ہے اور اسے وقت پر مکمل کرواتا ہے۔ ایک استاد کی نگرانی میں پوری کلاس ایک ہی ترتیب سے چلتی ہے، جبکہ استاد کی غیر موجودگی میں تمام طلباء کا کورس پورا کر پانا ناممکن ہے، پاس ہونے یا نہ ہونے کی بات تو بعد کی ہے۔

یہ تو ہوئی طلباء کی بات، اب ذرا اساتذہ کی بات بھی کی جائے۔ جن اساتذہ کرام کو الیکشن کمیشن نے بطور ریٹرننگ افسر تعینات کیا ہے، ان کی حالتِ زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی دفتر ہے، نہ آنے جانے کے لیے سواری، نہ کوئی مدد گار عملہ، نہ کوئی ایڈوانس، نہ کوئی رہائش، نہ کھانے کا انتظام اور نہ ہی سیکیورٹی کا اہتمام۔ واجب الاحترام اساتذہء کرام کی یہ سب ضروریات کون پوری کرے گا؟ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ یہ سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا کریں۔ اس پر مستزاد یہ کہ الیکشن سے ایک دن پہلے ہی اساتذہ کو پولنگ اسٹیشن پر رات گزارنے کے احکامات دیے جاتے ہیں. اس رات گذاری کا کوئی مناسب انتظام کیا جاتا ہے یا نہیں؟ کیا دور دراز کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اتنے وسائل رکھنے والے ہوتے ہیں کہ وہ یہ سب اخراجات اٹھا سکیں؟ اس سوال کا جواب میں پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔

ملک میں چاہے جتنی بار الیکشن کروا دیے جائیں، ملک اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہم اپنے اساتذہ کرام کی قدر نہیں کریں گے۔ الیکشن سے قبل دفتروں کے باہر بھیڑ بکریوں کی طرح اُنہیں دن بھر قطار میں کھڑا رکھنا، پھر اسٹیشن پر کام کرنے والے قُلی کی طرح اُن کے سر پر بیلٹ بکس اور ہاتھ میں سامان کا تھیلا تھما دینا اور انہیں مال مویشی کی طرح پھٹیچر بسوں میں ہانک دینا ہمارے سوا کسی مہذب قوم کا شیوہ نہیں۔

آپ سب ہی نے اشفاق احمد کا وہ مشہور واقعہ تو پڑھ یا سن ہی رکھا ہوگا کہ اٹلی میں جب وقت پر چالان ادا نہ کرنے پر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا، تو صرف یہ سن کر کہ وہ استاد ہیں، پورا کمرہء عدالت ان کے احترام میں کھڑا ہو گیا، اور جج سمیت تمام اسٹاف انہیں عزت و احترام کے ساتھ باہر تک چھوڑ کر آیا۔

یورپی ممالک نے جو بھی ترقی کی ہے، وہ تعلیم سے محبت اور معلم کی قدر کر کے کی ہے۔ ورنہ یہی یورپی ممالک تین چار سو سال پہلے انہی پستیوں میں موجود تھے جہاں ہم آج ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان کی ترقی سے سیکھنے کے بجائے الٹی راہ پر گامزن ہیں۔

انتخابات اور جمہوریت کے تسلسل کو مغربی ممالک کی ترقی کا راز بتایا جاتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ جمہوریت ملکی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ تو کیا امریکا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں الیکشن اسی طرح کروائے جاتے ہیں اور اساتذہ کی اسی طرح تذلیل کی جاتی ہے؟ طالب علموں کا مستقبل اسی طرح تباہ کیا جاتا ہے؟ ملک میں لاکھوں ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران اور ملازمین موجود ہیں، لاکھوں کروڑوں تعلیم یافتہ نوجوان خواتین و حضرات بے روزگار دربدر ہیں۔ محکمہء تعلیم کے علاوہ بیسیوں محکموں کے ملازمین اور افسران موجود ہیں۔ کیا الیکشن کروانے کے لیے ان کی خدمات حاصل نہیں کی جا سکتیں؟

خدارا، اساتذہ کرام کو ذلّت و رسوائی سے بچائیے، انہیں الیکشن و دیگر اضافی ڈیوٹیوں سے مستثنیٰ قرار دیجیے، اور ہزاروں طلبا و طالبات کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائیے۔ یہ نہ صرف نوجوانوں پر، بلکہ ملک کے مستقبل پر آپ کا بہت بڑا احسان ہوگا۔

تبصرے (4) بند ہیں

Faisal Hussain Oct 10, 2015 02:37pm
Brother you are absolutely correct. This duty will taken by another workers except teachers. If require, create a new dept. for this.
sjs poet Oct 10, 2015 04:43pm
@Faisal Hussain thanks a lot
sjs poet Oct 10, 2015 04:43pm
thanks a lot
Nomi Oct 11, 2015 12:32pm
hamary mulk me jab teachers ki vacancies aate hain to sab se ziyada siyasi wabastagi walay afraad select hotay hain aur phir unhe teachers ko elections me lagane ki sefarish lagai jate hai ta k siyasi log apna maksad yahi jali vote dalwa sakain. Election karana Election commission ka kaam hai to phir RO bhe inhe k hone chaiye na k teachers ko laga diya jata hai. very appreciated article