انمول الفاظ کوڑیوں کے دام

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2015
جس ملک میں صرف خوشامدی لکھاریوں کی قدر ہو وہاں کتابیں پتھاروں پر بٹیں یا ریڑھیوں پر، کیا فرق پڑتا ہے؟ — فوٹو فاروق سومرو
جس ملک میں صرف خوشامدی لکھاریوں کی قدر ہو وہاں کتابیں پتھاروں پر بٹیں یا ریڑھیوں پر، کیا فرق پڑتا ہے؟ — فوٹو فاروق سومرو

ابھی ایک اشتہار پر سے نظر گزری، جو شاعری کی ایک نئی مطبوعہ کتاب کے بارے میں تھا۔ کتاب کی اشاعت اگست 2015، یعنی دو ماہ پہلے کی ہی تھی، ناشر جہلم کا اور ملنے کا پتہ ایک چاٹ اینڈ دہی بھلے کارنر کا تھا۔ ان میں سے ایک شعر نے تو دل چھو لیا:

پوچھ میرے پیروں کے آبلوں سے

منزل تک پہنچنے میں کتنے زمانے لگے

ہو سکتا ہے کہ شاعر کو چاٹ اور دہی بھلے والے سے بہتر کوئی سخن فہم کتاب بیچنے والا نہ ملا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس پھلدار کاروبار کا مالک شاعر خود آپ ہو۔

برِ صغیر کے اہلِ ہنر کی آشفتہ حالی اور آبلہ پائی کچھ نئی نہیں، قرض کی مے کی عیاشی تو خیر کسی کسی کو میسر تھی، یہاں تو ضروریات زندگی اور ادویات کے لیے بھی بڑے بڑے نام امیر وقت کی چوکھٹ پر سرنگوں پائے گئے ہیں۔ کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب میرے ملک میں لکھنے والوں کا معیار زندگی بلند ہو پائے گا؟

فیصل آباد کا ناول نگار جو زندگی گزارنے کے لیے رکشہ چلاتا ہے اور فیصل آباد ہی کے نواح کا ایک موچی جو کئی کتابوں کا مصنف ہے، یہ خبریں ابھی بالکل تازہ ہیں، کیا اتنی کتابوں کے بعد ان کے مستقبل کا ستارہ جگمگا نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا بارہ کتابوں کے خالق کی زندگی میں کچھ بہتری نہیں آ جانی چاہیے تھی؟ مگر جہاں الفاظ کوڑیوں کے مول بک جائیں، جہاں جذبات کی قدر و قیمت کا پھل صرف بیوپاری کی جھولی میں گرے وہاں لکھنے والے اور فنکار کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔

آج سے تیرہ سال پہلے میں اپنی پہلی کتاب کا مسودہ اٹھائے اردو بازار لاہور کی گلیاں چھان رہا تھا۔ یہ کتاب زراعت کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے ترتیب دی گئی تھی اور اس قسم کی کوئی دوسری کتاب مارکیٹ میں موجود نہ تھی۔ کچھ احباب کی مدد سے کتاب کا مواد اکٹھا کیا گیا، کمپوز کیا گیا گیا، اور چھپوانے کے لیے کسی پبلشر کی تلاش ہوئی۔

ہر بازار کی طرح اردو بازار میں بھی خالصتاً تاجر ہی بستے ہیں۔ ایک دو نے اس مسودے کو ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ اور ایک دو نے کچھ اعزازی کتابوں کے عوض اس کو چھاپنے کا عندیہ دیا۔ اور جس مہربان پبلشر نے اس مسودے کی سب سے زیادہ قیمت لگائی وہ پچاس روپے فی صفحہ تھی۔ کتاب کے چار سو صفحات کی کل قیمت 20،000 روپے بنتی تھی، جو وہ مجھے یک مشت ادا کرنے کی آفر کر رہے تھے ۔ اس کے بعد وہ جانیں اور کتاب۔

اپنی محنت کی یہ قیمت سن کر میرا دل کھول اٹھا۔ یہ چار سو صفحات کیونکہ سوال و جواب کی صورت میں کمپوز ہوئے تھے، یعنی ایک سوال اور جواب میں چار مختلف آپشنز جن میں ایک درست ہوا کرتا ہے، اس لیے اس کا اصل مسودہ اٹھارہ سو صفحات پر کمپوز ہوا تھا۔ بعد میں کتاب کے صفحات کی ترتیب میں ہر صفحہ پر سوال و جواب کی تعداد بڑھا کر اس کے صفحات کم کیے تھے۔

13 سال پہلے کمپوزرز آج سے زیادہ مصروف اور مہنگے ہوتے تھے، کیونکہ کمپیوٹر ہر شخص کا ذاتی نہ ہوتا تھا۔ اور ہم ایسے طالب علم تو بس انہیں دور سے ہی دیکھتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے کمپوزنگ والے دکاندار سی ڈی پر مٹیریل لینے کے بھی روپے چارج کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں کمپوز ہوئی کتاب کی اتنی کم قیمت سن کر میں لاہور کے اس مشہور پبلشر کے چوبارے سے میز پر دھری استقبالی چائے بھی چھوڑ کر چلا آیا۔

من پر ایک دھن سوار تھی کہ اس کتاب کو چھاپنا ہے اور ایک ماہ کے اندر چھاپنا ہے تاکہ امتحانات سے پہلے پہلے آ جائے۔ کتاب چھپوانے کی قیمت کے تخمینے لگوائے گئے اور سوچا گیا کہ اس کتاب کو خود ہی چھاپ لیا جائے۔ ایک کتاب کی چھپوائی 25 سے 30 روپے میں پڑ رہی تھی، یعنی 25 سے 30 ہزار روپیہ ہی درکار تھا۔ دوستوں اور بڑے بھائیوں سے ادھار لے کر اس کا پہلا ایڈیشن چھاپا اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کتاب کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور ایک ماہ کے اندر اندر دوستوں کا قرض اتار دیا۔ اب تک اس کے چھ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔

اگر آپ کے پاس انویسٹ کرنے کو کچھ روپے ہوں اور لگتا ہو کہ آپ کی کتاب بک سکتی ہے تو بیچنے والے کو 40 فیصد کمیشن دے کر بھی آپ کو مناسب منافع مل سکتا ہے۔ وہ کتاب جس کا مسودہ 20 ہزار روپے قیمت پا رہا تھا، اب اوسطاً ہر ایڈیشن پر 1 لاکھ روپیہ منافع دیتا ہے، لیکن کیونکہ لکھنے والوں کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہوتی اس لیے وہ پبلشر کے ہاتھوں لٹنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ہمارے اکثر پبلشرز مصنفین کا جائز حق دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ کتاب بکنے والی ہو اور مصنف اس کے حقوق بیچنے پر تیار نہ ہو تو رائلٹی کے نام پر 15 سے 20 فیصد پر گھیر لیتے ہیں، یعنی ایک ایڈیشن پر 15 سے 20 ہزار روپے مصنف کو ملیں گے، اورایسے معاملات میں چپکے سے ایڈیشنز کی تعداد میں اضافہ کر دیتے ہیں، جیسے پندرہ سو کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لیا اور مصنف کو بتایا کہ ہزار کتابوں کا ایڈیشن ہے۔

اگر کسی نہ کسی طرح آپ ان کے چنگل میں پھنسنے کو تیار نہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ خود سے پبلشر ہوں اور آپ کو کتاب بیچنے میں مدد مل جائے تو کتاب بیچنے والے اپنا منافع 40 سے 50 فیصد پر لے جاتے ہیں۔ یعنی جو کتاب تین سو روپے میں بکے گی وہ بیچنے والے کو 120 سے لے کر 150 روپے میں ملے گی۔ اب ذرا غور کیجیے کہ کتاب چھاپنے، لکھنے والے کا حصہ ڈیڑھ سو ہے، اس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو اس کتاب کی اشاعت پر لگی ہے، اور دوسری طرف کتاب بیچنے والا کا منافع بھی ڈیڑھ سو ہے۔

قصہ مختصر دس بارہ کتابوں کے مصنف کی زندگی میں کوئی بہار آنے کی کوئی امید ہی نہیں۔ کتابوں سے آنے والی آمدنی سے گھر، گاڑی بنانے کا خیال پاکستان جیسے ملک میں ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔

اب ایسے ہی ہمارا پرنٹ میڈیا ہے، جو اپنے منافع میں کسی کو شریک کرنے کا روادار نہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبارات میں سے چند ایک تو اپنے لکھنے والوں کو اعزازیہ دیتے ہیں، لیکن اردو اخبارات دو چار مضامین ماہانہ لکھنے والے چند بڑے ناموں کے علاوہ کسی کو کسی قسم کا معاوضہ تو درکنار اعزازیہ دینے کے بھی روادار نہیں۔

لوگ اس آرزو میں لکھتے لکھتے بوڑھے ہو جاتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا ان کے لیے زندگی کی آسائشیں خرید پائے گا، اور جب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو لوگ چور دروازوں کے متلاشی ہو جاتے ہیں، کسی سیاسی مافیا کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں، اپنی سوچ، دلیل اور جذبات گروی رکھ دیتے ہیں۔ آپ اردگرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں، خوشامدی اور درباری قسم کے لکھاری ہر حکومت کی آنکھ کا تارہ رہتے ہیں۔ سرکاری عہدوں سے بھی نوازے جاتے ہیں اور نجی ادارے بھی ان کی تحاریر کے اچھے دام دیتے ہیں۔ یہ معاشرے کی پستی اور زوال کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں لکھنے والوں کی کتابیں جوتوں کی دکانوں پر بٹیں یا دہی بھلوں کی ریڑھیوں پر فروخت ہوں، کیا فرق پڑتا ہے؟

تبصرے (13) بند ہیں

آصف ملک Oct 28, 2015 01:53pm
لاجواب اور کھرا تجزیہ ۔ باقی درباری اور خوشامدی لکھاریوں کو نوازے کی تازہ تازہ مثال چیئرمین پیمرا اور چیئرمین پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی
Farrukh Manzoor Oct 28, 2015 02:48pm
جو شعر لکھا گیا ہے وہ وزن میں ہی نہیں تو ظاہر ہے ایسی شاعری کی کتاب دہی بھلے کی دوکان سے ہی مل سکتی ہے۔
AK Oct 28, 2015 03:56pm
Sorrowful to know the detailed story behind publishing.
رمضان رفیق Oct 28, 2015 05:28pm
@Farrukh Manzoor پیارے بھائی جن کے اشعار کا وزن پورا ہوتا ہے کیا ان کو اس کی قیمت ملتی ہے؟
صوفیہ کاشف Oct 28, 2015 05:35pm
پاکستان کی گلیوں میں صرف مصنف ہی نہیں ہر اہلیت, ہر حقدار ایڑھیاں رگڑتا ہے
محمد سلیم Oct 28, 2015 06:10pm
آپ کی شخصیت پرت در پرت کھل رہی ہے۔ آپ کی کامیابیوں کے پیچھے چھپی آپ کی لگن کی سمجھ آ رہی ہے۔ اللہ پاک آپ کا اقبال مزید بلند فرمائے۔ آمین
Murad Quasim Oct 28, 2015 06:29pm
Our people need to learn software like Wordpress and make their own sites with subscription service. These same Urdu Bazar publishers sell tutorial books for such software for peanuts.
محمدخالد Oct 28, 2015 07:01pm
آوء اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں آہ اور کتنے ساغر غریبی کی نظر ہو جائینگے.........؟
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Oct 28, 2015 09:50pm
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی !
Imran Oct 29, 2015 03:53am
#صوفیہ کاشف : بالکل درست کہا ہے آپ نے کیوں کے جب جعلی ڈگری والے اونچے عہدوں پر بیٹھیں گے تو اپنے سے زیادہ نکمے اور کام چوروں کو ہی پسند کریں گے!!!! اس کے علاوہ بعض دفعہ کا یار لوگ فوٹو کاپی کی شکل میں کتابیں بنا کر بیچنا شروع کر دیتے ہیں!!!!!!
farah Oct 29, 2015 01:11pm
جس ملک میں کتابیں ٹھیلوں پر اور جوتے شیشے کی دکانوں پر فروخت ہوں،ایسی قوم کو کتابوں کی نہییں جوتوں کی ضرورت ہے۔۔
سہیل یوسف Oct 29, 2015 02:50pm
بہت عمدہ تجزیہ، ایک مصنف اور مترجم کی حیثیت سے مجھے اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے۔ ہمارےایک دوست سے کچھ اداروں نے گزشتہ دس برس میں درجنوں مرتبہ کام کرایا اور اب تک معاوضہ نہیں دیا۔ اس ملک میں نئے لکھاریوں کے لیے بہت گھٹن اور مصائب ہیں۔ امید ہے کہ ڈان ان کی آواز بھی بلند کرے گا۔
سہیل یوسف Oct 29, 2015 02:54pm
@آصف ملک بالکل درست فرمایا، خوشامدی لکھاریوں کے لیے یہ ملک جنت ہے جہاں اہلِ قلم طاقتور لوگوں کے منشی بن جاتےہیں۔ حال ہی میں ایک نامعروف اخبار کے انتہائی گمنام صحافی جن کی عمر20 سال بتائی جاتی ہے وزیرِاعٖظم نواز شریف کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی کانفرنس میں موجود تھے ۔