پی آئی اے فلائٹ سروس کی جزوی بحالی

اپ ڈیٹ 07 فروری 2016
اسلام آباد ائیر پورٹ پر طیاروں کی آمد اور روانگی ہوئی — فائل فوٹو: رائٹرز
اسلام آباد ائیر پورٹ پر طیاروں کی آمد اور روانگی ہوئی — فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے ملازمین کی ہڑتال کے باعث بند فلائیٹ سروس چھٹے روز بحال ہونا شروع ہو گئی۔

اسلام آباد کے بینظیر انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر 4 پروازوں کو ڈیل کیا گیا البتہ باقی ملک میں کسی بھی ایئر پورٹ پر پی آئی اے کے کسی جہاز نے پرواز نہیں کی۔

بینظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ابوظہبی کی انٹرنیشنل پرواز اور گلگت کی اندورون ملک کی پروازیں آئیں جبکہ انہیں دونوں مقامات کی جانب پی آئی اے کی پروازیں روانہ بھی ہوئیں۔

قبل ازیں سعودی عرب کے شہر جدہ میں موجود پاکستانی عمرہ زائرین کو لینے لیے بھی 2 طیارے روانہ کیے گئے.

بعد ازاں یہ دونوں پروازیں 720 کے قریب افراد کو لے کر اسلام آباد پہنچے.

سول ایوی ایشن (سی سی اے) حکام کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پی آئی اے کی جانب سے اس حوالے سے مطلع نہیں کیا گیا کہ مزید فلائیٹس کی آمد یا روانگی ہوگی یا نہیں.

پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا تھا کہ آپریشن جذوی طور ہر بحال ہوا ہے، بعض ملازمین کام پر دوبارہ آنا چاہتے ہیں.

انہوں نے بتایا کہ دو سے تین روز میں سعودی عرب سے تمام عمرہ زائرین کو واپس لایا جائے گا.

واضح رہے کہ گزشتہ روز پی آئی اے کے پائلٹس نے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا.

دوسری جانب پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاج کرنے والوں کی تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مظاہرے جاری ہیں جبکہ ائیرپورٹس تک ریلیاں نکانے کا بھی اعلان کیا گیا، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب احتجاج کرنے والے ملازمین کو لاپتہ کرنے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں اور عدالت میں درخواست بھی دائر کی گئی ہے.

یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں گذشتہ ہفتے قبل 21 جنوری کو 6 بل پیش ہوئے تھے جن میں دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کی نجکاری کا بل بھی شامل تھا جس میں پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل بھی شامل تھا، اس بل کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن کو پاکستان انٹرنیشل ایئر لائن کمپنی لمیٹڈ میں تبدیل کیا جائے گا.

یہ بل سامنے آتے ہی ملک بھر میں پی آئی اے کے ملازمین کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا، جس سے پی آئی اے کے امور متاثر ہونے لگے تھے.

منگل 2 فروری کی صبح فضائی آپریشن معطل کرنے کی دھمکی کے بعد حکومت نے 1952 کا لازمی سروسز ایکٹ نافذ کر دیا ، جس کے تحت تمام یونینز تحلیل ہو گئیں، جبکہ اب ہڑتال یا احتجاج کرنے والے ملازمین ملازمت سے فارغ کر دیئے جائیں گے.

مذکورہ ایکٹ کے نفاذ کے بعد ملازمین مزید مشتعل ہو گئے اور مزدور تنظیموں کے اتحاد نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ریلی نکالنے کی کوشش کی، لیکن رینجرز اور پولیس کی فائرنگ، آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کے دوران 2 ملازمین ہلاک ہوئے.

ملازمین کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بند ہونا شروع ہوگیا، جو 5 روز سے بند ہے، فلائٹ آپریشن کی بندش سے ادارے کو ایک اندازے کے مطابق 2 ارب 50 کروڑ روپے تک کا نقصان ہو چکا ہے.

بعد ازاں ملازمین کی ہلاکت پر پی آئی اے کے چیئرمین ناصر جعفر مستعفی ہو گئے جبکہ رینجرز نے قتل کی تحقیقات کے لیے 2 رکنی کمیٹی قائم کی کیونکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ملازمین کے قتل کا ذمہ دار رینجرز کو قرار دیا تھا.

رینجرز نے اس سلسلے میں ایک مشکوک شخص کی ویڈیو بھی جاری کی جو احتجاج میں شریک تھا، تاہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اسے پی آئی اے کا ہی ملازم قرار دیا اور بعد ازاں اس شخص کو میڈیا کے سامنے پیش بھی کر دیا گیا.

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ کی جانب سے اس واقعہ کا مقدمہ کراچی کے ائیر پورٹ تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروایا گیا جس یمیں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید، مسلم لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان، شجاعت عظیم سمیت 5 حکومتی شخصیات پر سازش کا الزام عائد کیا گیا۔

پی آئی اے کے ملازمین کی جانب سے نجکاری کے خلاف احتجاج پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ہڑتال کرنے والوں کو اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا اور انھیں ملازمت سے برطرفی کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے، ساتھ ہی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کچھ سیاسی عناصر پی آئی اے کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے احتجاج کو سیاسی کھیل قرار دیا، جبکہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) سمیت خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی، اسی طرح وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بیان دیا کہ سرکاری شعبے میں بہتری کے لیے اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

ملازمین کی ہڑتال کے باعث حکومتی امور بھی متاثر ہوئے اور قائمہ کمیٹی کا اجلاس بھی اسی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا جبکہ بعض اوقات حکومتی شخصیات کو ہوائی اڈوں پر ملازمین کے نعرے بھی سننا پڑے.

علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے ہڑتال کے بعد نئی حکمت عملی پر بھی غور شروع کر دیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ حکومت نئی ایئر لائن بنانے پر غور کر رہی ہے، جس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ پی آئی اے چل نہیں رہی تو کیا ضمانت ہے کہ نئی ایئرلائن بھی چل سکے۔

پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتال کے باعث فلائٹ سروس کی بندش کے بعد نجی ایئر لائنز نے کرایوں میں 3 سے 4 گنا اضافہ کر دیا اور 31 جنوری تک 7 ہزار روپے میں دستیاب ٹکٹ 21 ہزار روپے کا کر دیا گیا۔

4 روز کی فلائٹ سروس کی بندش کے بعد حکومت نے احتجاج کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے رابطہ کیا.

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ کیپٹن سہیل بلوچ نے وفد کے ہمراہ چیئرمین نجکاری کمیشن اور وزیر نجکاری محمد زبیر سے کراچی میں ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی، تاہم یہ ملاقات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور تعطل برقرار رہا.

فلائیٹ سروس کی بندش کے پانچویں روز پی آئی اے کے پائلٹس کی ایسوسی ایشن پالپا کا ہڑتال سے الگ ہونے کا اعلان سامنے آیا، پالپا کے صدر عامر ہاشمی نے کہا کہ سیکیورٹی فراہمی پر 430 میں سے 410 پائلٹس جہاز اڑانے کیلئے تیار ہیں.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں