قومی اسمبلی میں 'متنازع' سائبر کرائم بل منظور

اپ ڈیٹ 14 اپريل 2016
قومی اسمبلی نے متنازعہ سائبر کرائم بل منظور کرلیا — فائل فوٹو/ رائٹرز
قومی اسمبلی نے متنازعہ سائبر کرائم بل منظور کرلیا — فائل فوٹو/ رائٹرز

اسلام آباد: قومی اسمبلی نے آج (بدھ) کو الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا بل 2015 منظور کرلیا۔

تاہم بل کو قانونی شکل دینے کیلئے سینیٹ سے منظوری ضروری ہے۔

خیال رہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت اور اس پر تحفظات کو دور کئے بغیر بل کی منظوری دی گئی ہے۔

بل کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا اختیارات دینے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل منظور

مذکورہ بل کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون 2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

تاہم اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا تھا۔

آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں نے زور دیا تھا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کیلئے نقصان کا باعث ہے۔

یاد رہے کہ مذہب، ملک، عدالتوں اور فورسز پر آئن لائن تنقید اس بل کے تحت سرکاری کام میں مداخلت کے زمرے میں آئے گی۔

سائبر کرائم بل کیا ہے؟

انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔

سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم بل آزادی پر خطرناک حملہ کیوں ہے؟

عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔

ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچان اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

حسن امتیاز Apr 13, 2016 08:07pm
اس قانون کی مدد سے ’’بیورو کریسی‘‘ کو مزید طاقت مل جائے گی ۔