پانامالیکس کمیشن ٹی او آرز،سپریم کورٹ تبدیلی کی مجاز

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2017
نواز شریف نے کالم نگاروں اور دیگر صحافیوں سے ملاقات کی — فوٹو: اے پی پی
نواز شریف نے کالم نگاروں اور دیگر صحافیوں سے ملاقات کی — فوٹو: اے پی پی

لاہور : پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے گئے کمیشن کے ضابطہ کار کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ چاہیں تو ٹی او آرز تبدیل کر سکتے ہیں۔

لاہور کے گورنر ہاﺅس میں کالم نگاروں اور دیگر صحافیوں سے ملاقات میں وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کےمعاملے پر تحقیقات میں سپریم کورٹ سے مکمل تعاون کرنے کا تذکرہ کیا۔

وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ کمیشن میں چیف جسٹس با اختیارہوں گے، ضابطہ کار تبدیل کرنا بھی ان کا اختیار ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ سے تحقیقات میں تعاون کریں گے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کا تذکرہ کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاست سے نابلدہیں، وہ صرف بد کلامی کرنا جانتے ہیں۔

وزیر اعظم نےعمران خان کو بچکانہ سیاست کے بجائے سنجیدہ سیاست کا مشورہ بھی دیا۔

ایک صحافی کے سوال کہ ‘عمران خان کا آپ کے پاس کیا علاج ہے؟’، تو نواز شریف نے مسکرا کر کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ وہ لاعلاج ہیں۔

اس سے قبل گورنر ہاؤس میں اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے منشور اور وعدوں کےمطابق لوڈ شیڈنگ 2 برس میں ختم کرنے کا ایک بار پھر اعلان کیا۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بجلی، گیس اور انفرا سٹرکچر کےمنصوبے 2018 تک مکمل کر لیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں : الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف

خیال رہے کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد وزیر اعظم نے دو بار قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلے خطاب میں تحقیقاتی کمیشن کے قیام اور دوسرے میں اس کمیشن کے ضابطہ کار یعنی ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کا اعلان کیا تھا، تاہم حزب اختلاف کی تمام جماعتیں یہ ٹی او آرز مسترد کر چکی ہیں۔

وزیر اعظم کے اعلان کردہ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس

  • کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیرملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

  • کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہلخانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

  • انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرےگا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

  • انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنےکا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔

  • انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجازافسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔

  • انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

  • تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔

  • کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔

پاناما لیکس

آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی مئی 2016 کے آغاز میں افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں۔

یہ بھی پڑھیں : 'جہانگیر ترین یا عمران خان سے پہلے نواز شریف کا احتساب ہوگا'

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس: صرف وزیراعظم کے خاندان کے احتساب کا مطالبہ

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عثمان سیف اللہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔

لیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Sabeen Khatoon May 01, 2016 01:03pm
یہ کالم نگار کون ہیں جن سے وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات کی؟ ان کے انتخاب کی کیا کسوٹی تھی؟ عجیب معاملہ ہے کہ صرف لاہور اور اسلام آباد کے چند صحافیوں کو بلا کر ہر حکومت میڈیا کی ی رائے معلوم کرنا چاہتیہے یا نہیں حالات و واقعا کے بارے میں بریفنگ دیتی ہے، جیسے ملک کے دیگر صوبوں سندھ بلوچستان، خیبر پختونخوا یا کراچی ،حیدرآباد ، کوئٹہ میں کالم نگار یا صحافی نہیں بستے یا یہاں کے صحافی نہیں لکھتے۔ اگر یہ ”انجمن ستائش باہمی“ ہے تو الگ معاملہ ہے۔ وزیراعظم جب کسی معاملے پر اپنی وضاحت یا موقف پورے طور پر دینا چاہتے ہیں تو ملک کے باقی حصوں کالم نگاروں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں خاص طور پر سندھ کا ذکر کیا جاسکتا ہے جہاں کی میڈیا اور کالم نگار اردو یا انگریزی سے کسی طور پر کم نہیں۔ سندھ کے نصف درجن صحافی نہ صرف سندھی میں بلکہ اردو میں بھی کالم لکھتے ہیں۔ حسن مجتبیٰ، سہیل سانگی، غلام نبی مغل کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے