لاہور: پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ انھیں کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان گروپ نے اغوا کے بعد قیدی بنا کر رکھا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے شہباز تاثیر نے بتایا کہ انھیں اغوا کے بعد لاہور سے وزیرستان کے علاقے میرعلی لے جایا گیا۔

پاکستان سے افغانستان منتقل کیے جانے کی روداد سناتے ہوئے شہباز تاثیر نے کہا کہ انھیں میرعلی میں 2014 تک رکھا گیا اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد حکومت اور فوج کے ممکنہ ردِ عمل کے پیش نظر انھیں دتہ خیل کے راستے شوال منتقل کیا گیا جہاں وہ فروری 2015 تک رہے، اس کے بعد گومل کے راستے افغانستان کے صوبہ زابل منتقل کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز بازیاب

اغوا کاروں کی قید سے آزاد کیے جانے کے واقعے کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جس ازبک گروپ کے پاس وہ تھے انھوں نے طالبان کے امیر ملاعمر کے ہاتھ پر بیعت کررکھی تھی تاہم ان کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد ان لوگوں کا کہنا تھا کہ افغانی طالبان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی، اس موقع پر شام اور عراق میں ابو بکر البغدادی نے خلافت کا اعلان کرکے داعش کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈال دی تھی اور مذکورہ ازبک گروپ نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی۔

رپورٹ کے مطابق شہباز تاثیر کا کہنا تھا کہ داعش میں شمولیت کے بعد ازبک گروپ اور افغان طالبان کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا جس پر افغان طالبان نے ان پر حملہ کرکے ان کی پوری قیادت کو ختم کردیا، تاہم اس واقعے کے بعد شہباز تاثیر ازبک گروپ سے طالبان کی قید میں چلے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں گرفتار ہونے والے افراد کو ایک طالبان قاضی کے سامنے پیش کیا گیا جس نے انھیں چھ مہینے سے دو سال تک قید کی سزائیں سنائی اور اس کے ساتھ ہی انھیں ایک افغان جیل میں بھیج دیا گیا، جہاں انھیں ایک افغانی طالبان ملا اور اس نے ان کی مدد کرتے ہوئے دو سے تین ماہ میں ان کی رہائی کےلیے راستہ ہموار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: علی حیدرگیلانی افغانستان سے بازیاب

شہباز تاثیر کا کہنا تھا کہ انھوں نے افغانستان سے موٹر سائیکل پر کچلاک کا سفر کیا جس میں انھیں آٹھ دن لگے، 'مجھے 29 فروری کو رہائی ملی اور آٹھ مارچ کو میں نے گھر فون کر کے بتایا کہ میں پاکستان آ گیا ہوں'۔

خود پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے شہباز تاثیر نے بتایا کہ اغوا کاروں نے انھیں آغاز میں کوڑے مارے اور تین سے چار دنوں میں ان کے جسم پر پانچ سو سے زائد کوڑے برسائے گئے، اس کے بعد ان کی کمر کو بلیڈوں سے کاٹا گیا، پھر ان کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن نکالے گئے اورانھیں مختلف اوقات میں کچھ عرصے کے لیے زمین میں دبایا گیا۔

مزید پڑھیں: شہباز تاثیر کوئٹہ سے لاہور پہنچ گئے

ایک سوال کے جواب میں شہباز تاثیر کا کہنا تھا کہ 'اغوا کار انھیں بھوکا رکھتے، پہرے داروں کا رویہ بہت برا تھا، انھوں نے میرا منہ سوئی دھاگے سے سی دیا، انھوں نے مجھے سات دن یا شاید دس دن کھانا نہیں دیا، مجھے ٹانگ پر گولی ماری گئی تاہم میں بہت خوش قسمت ہوں کہ وہ میری ہڈی ک چھوئے بغیر نکل گئی'۔

خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو 26 اگست 2011 کو لاہور سے اغوا کیا گیا تھا اور تقریباً ساڑھے چار سال بعد آٹھ مارچ 2016 کو ان کی رہائی عمل میں آئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr May 17, 2016 03:26am
تمام باتوں ایک بات بہت ہی عور طلب ھے کہ مجھے 29 فروری کو رہا کیا گیا اور 8 مارچ کو فون پر میری رہائی کی اطلاع دی گئی یہ جملہ بہت معنی خیر ھے