473امریکی ڈرون حملے:'صرف 116 شہری ہلاک'
واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے 2009 سے 2015 کے دوران امریکا کی جانب سے کیے جانے والے 473 ڈرون حملوں میں 64 سے 116 شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20 جنوری 2009 اور 31 دسمبر 2015 کے درمیان 473 ڈرون حملے ہوئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس دوران ڈرون حملوں میں 2372 سے 2581 جنگجو بھی مارے گئے۔
رپورٹ میں صرف ان ممالک کا ذکر کیا گیا ہے جہاں شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں جاری ہیں جس میں پاکستان، یمن، لیبیا اور صومالیہ شامل ہیں جبکہ افغانستان، عراق اور شام کو رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا کہ یہ ممالک حالت جنگ میں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی امریکی صدر اوباما نے ایگزیکٹیو آڈر جاری کیے ہیں جس میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی سالانہ رپورٹ جمع کروائی جائے اور ان کی حفاظت کے لیے منصوبہ بندی تیار کی جائے۔
دوسری جانب کئی خود مختار تنظیموں نے امریکی ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کی تعداد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری رپورٹ میں سے زیادہ بتائی ہے۔
کئی خود مختار تنظیموں کے مطابق امریکی ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کی تعداد 200 سے ایک ہزار تک ہے۔
یہ بھی پڑھیں : افغانستان:ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کا اہم کمانڈر ہلاک
لندن میں قائم بیورو انویسٹی گیٹو جرنلزم نے اندازہ لگایا ہے کہ 2002 سے پاکستانی، صومالیہ اور یمن میں ڈرون حملے میں 429 سے 1100 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت افسوناک ہے، شدت پسند علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ شہریوں کی حفاظت بھی اہم ہے، ہمیں شہریوں کی جان کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہریوں کی ہلاکت کو کم کرنے کی کوشش کرے گی اور آپریشن کے دروان مزید شہریوں کو ہلاکت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جائیں گے۔
رپورٹ میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں دی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اوباما کے احکامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ صحیح وقت میں اہم فیصلہ کیا گیا ہے، اس سے ایک مثال قائم ہوجائے گی اور مستقبل میں کئی ممالک مہلک ہتھیار استعمال کرنے کے صحیح طریقہ کار کے بارے میں آگاہ ہوجائیں گے۔
لیکن ایک اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم، ریپرائیو نے وائٹ ہاؤس کی رپورٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب سے بچنے کے لیے رپورٹ میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے نام، چہرے اور دیگر ضروری تفصیلات بھی جاری نہیں کی گئی۔
اس ضمن میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاوس کی رپورٹ پر بریفنگ سے قبل امریکی صدر اوباما کی جانب سے ایگزیکٹیو آڈر جاری کردیئے گئے تھے۔
مزید پڑھیں : ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘
صدر اومابا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی کو شفاف بنانے کے لیے ’ایگزیکٹیو آڈر‘ میں جاری کیے گیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدراوباما اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی اس وقت زیادہ موثر ہوگی جب شفافیت کو ممکن بنائیں گے، البتہ کچھ حساس معاملات کے لیے شفافیت کی حد متعین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ممالک کو حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے اس رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا، ان ممالک میں ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی تعداد تفصیلات اکٹھی کی جارہی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں امریکی ملٹری کی جانب سے ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سی آئی اے کی جانب سے سب سے زیادہ ڈرون حملے پاکستان میں کئے گئے ہیں لیکن ان آپریشنز کی تفصیلات کا رپورٹ میں ذکر نہیں کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکت کی رپورٹ تیار کی ہے اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ اور ایجنسیز کو ’ایگزیکٹیو آڈرز‘ پر عمل در آمد نے کے لیے نوٹس بھیج دیئے گئے ہیں۔
’ایگزیکٹیو آڈر‘ میں تسلیم کیا گیا کہ امریکی حکومت معصوم شہریوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے اور معصوم شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمی شہریوں اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے خصوصی امداد کی پیش کش کی گئی ہے۔
یہ خبر 2 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔











لائیو ٹی وی