ان دنوں واشنگٹن میں سعودی سفارتکار ہونا خوشگوار بات نہیں، صدارتی نامزدگی کے ری پبلکن امیدوار کا خیال ہے کہ سعودی عرب کو امریکی فوج کی سلامتی کی قیمت چکانی چاہیے۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر سعودی عرب کے حریف ملک ایران کے ساتھ گرم جوش تعلقات کے خواہاں ہیں اور امریکی انٹیلی جنس ادارے جلد ہی 28 صفحات پر مشتمل 2003 کی کانگریس کی رپورٹ منظر عام پر لانے والے ہیں۔

رپورٹ کے حوالے سے ایک سابق سینیٹر کا کہنا ہے کہ اس میں نائن الیون حملوں کی مالی معاونت میں سعودی عرب کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ورلڈٹریڈسینٹرحملے:'سعودی عرب کا تعلق نہیں تھا‘

یہ بات انتہائی حساس ہے، 28 صفحات پر مشتمل یہ خفیہ رپورٹ نائن الیون حملوں کی پہلی کانگریسی تحقیقات کا حصہ ہیں جس میں امریکا میں موجود مبینہ سعودی نیٹ ورک کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں جس نے دو ہائی جیکرز کی معاونت کی۔

پریس اکائونٹس اور اس رپورٹ کے پڑھنے والوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں سعودی عہدے دار فہد ال تھمیری کے حوالے سے زیادہ سوالات اٹھائے گئے ہیں جو نائن الیون کے دو ہائی جیکر سے اس وقت رابطے میں تھا جب وہ سن 2000ء میں سان ڈیاگو آئے تھے۔

امریکی وفاقی تحقیقاتی بیورو (ایف بی آئی) کا کہنا ہے کہ جب اس کے ایجنٹس نے تھمیری سے تفتیش کی تو وہ مکر گیا۔

نائن الیون حملوں کی تحقیقات کرنے والی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سابق سینیٹر باب گراہم حالیہ مہینوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ کے یہ 28 صفحات دھماکہ خیز ہوں گے۔

جبکہ دیگر کا خیال کچھ اور ہی ہے، 27 اپریل کو نائن الیون کمیشن کے شریک چیئرمین ٹام کین اور لی ہیملٹن نے بیان جاری کیا کہ ان 28 صفحات میں موجود معلومات نامکمل اور غیر مصدقہ ہیں۔

انہوں نے بارہا یہ کہا کہ کمیشن اس موقف پر پہنچا ہے کہ انہیں سعودی حکومت یا کسی سعودی عہدے دار کے القاعدہ کی فنڈنگ کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور سعودی عرب میں سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف جان برینن خود بھی اس حوالے سے رواں ماہ بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود سعودی پریشان ہیں، امریکا میں سعودی سفارتخانے کے ڈائریکٹر انفارمیشن اور امور کانگریس نائل الجبیری نے بتایا کہ وہ 28 صفحات کی اشاعت کے منتظر ہیں اور انہیں امید ہے کہ رپورٹ میں سے کچھ بھی حذف نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ایک بھی لفظ چھپایا نہ جائے کیوں کہ اس سے سازشی نظریات پھیلانے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔

جب میں ان کے دفتر پہنچا تو نائل الجبیر نے مجھے 38 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ دی جو سعودی سفارتخانے نے اپنے ملک پر لگنے والے ممکنہ الزامات سے نمٹنے کیلئے تیار کی ہے۔

یہ دستاویز زیادہ تر سینئر امریکی عہدے داروں کے بیانات اور حکومتی رپورٹس پر مبنی ہے، جیسے سعودی عرب القاعدہ کا نشانہ رہا ہے اور القاعدہ کیخلاف امریکی قیادت میں جاری مہم کا حصہ ہے، جن سے زیادہ تر مبصرین پہلے ہی واقفت ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودیہ کی امریکا کو اثاثے فروخت کرنے کی دھمکی

جیسا کہ میں نے اپریل میں بتایا تھا کہ امریکی صدر براک اوباما نے سعودی عرب کے ساتھ عسکری اور انٹیلی جنس تعلقات کو بڑھادیا ہے کیوں کہ سعودی عرب شدت پسند گروپس کیخلاف موثر اتحادی ثابت ہوا ہے۔

لیکن یہ صرف کہانی کا ایک پہلو ہے، سعودی عرب کی موجودہ حکومت شاہی سعود خاندان اور علماء پر مبنی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاہدے کا نتیجہ ہے۔

سعودی گزشتہ دہائی میں القاعدہ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت سے وابستہ فنڈز کو بہت حد تک قانون کے دائرے میں لائے ہیں، لیکن آج سعودی عرب اس طرز کی بالادستی کو فروغ دے رہا ہے جو یہودیوں، عیسائیوں، شیعہ اور لادینوں کے خلاف نفرت کی آگ کو بھڑکاتی ہے۔

اس حوالے سے ہمیں واضح مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، سعودی عرب کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والی کتابوں کو ہی دیکھ دلیں، 2006 میں وکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والی خفیہ دستاویز کے مطابق سعودی عرب میں آٹھویں جماعت کے طالب علموں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ 'خدا ان مسلمانوں کو بھی سزا دے گا جو اس کی اطاعت نہیں کرتے جیسا کہ اس نے بعض یہودیوں کو خنزیر اور بندر بناکر سزا دی'۔

نائل الجبیر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ درسی کتابیں حالیہ چند برسوں میں مزید شدت پسند ہوگئی ہیں اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر حکومت کو مزید توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ اسکولوں کی نگرانی نہیں کرتے اور ان پر توجہ نہیں دیتے تو شدت پسندی آہستہ آہستہ یہاں داخل ہوجاتی ہے، انہوں نے امریکا میں اس سلسلے میں قدامت پسند عیسائی فرقے کی کوششوں کا حوالہ بھی دیا۔

مزید پڑھیں: ورلڈٹریڈسینٹرحملہ:سعودی حکومت پرمقدمہ ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ کس نے سوچا ہوگا کہ 1980 کی دہائی میں پیٹ روبرٹسن کے گروپس اسکول بورڈز کے انتخابات جیت جائیں گے۔

نائل الجبیر نے اس بات کی تردید کی کہ سعودی جیسا شدت پسندانہ نصاب اپنے اسکولوں اور مساجد میں نافذ کرتے ہیں ویسے ہی مواد کی دنیا بھر میں حمایت بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم جب کسی اسکول کو فنڈز دیتے ہیں تو نصاب اس کا اپنا ہی ہوتا ہے، حکومت سے معاہدے کے بغیر ہم کوئی اسکول نہیں تعمیر کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ سعودی عرب کو مسجد کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کا کہیں اور جب کچھ غلط ہوجائے تو کہیں کہ اس مسجد کی فنڈنگ تو سعودی عرب کرتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ درست نہیں، مسجد کی نگرانی میں کوتاہی کے ذمہ دار مقامی حکام ہیں،1980 کی دہائی میں امریکا نے پاکستان میں درسی کتابوں کیلئے فنڈنگ کی تھی جو پاکستانی مہاجر کیمپوں میں پڑھائی جاتی تھیں، ان میں بھی ایسا ہی شدت پسدانہ مواد ہوتا تھا۔

سعودی عرب میں کھلے عام سزائے موت کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بات کرتے ہوئے نائل الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب کا نظام انصاف قانون کی حکمرانی پر مبنی ہے، متعدد ججز اور عدالتی کارروائیوں کے بعد سزائے موت سنائی جاتی ہے جس کی توثیق بادشاہ خود کرتے ہیں۔

اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم مجرموں کو سزا دیتے ہیں تو جی ہاں بالکل ہم دیتے ہیں، آپ سعودی عرب میں جرم کریں گے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں قانون سخت ہے اور ہم اس پر معذرت نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی مغربی آزاد خیال جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، ہماری معاشرتی بنیاد ہزاروں برس پرانی ہیں۔

انہوں نے سزائوں کے سعودی نظام اور شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے سزا دینے کے طریقوں میں مماثلت کو مسترد کیا اور کہا کہ داعش امدادی کارکنوں اور صحافیوں کے سر قلم کرکے ان کی ویڈیوز پروپیگنڈا کیلئے یوٹیوب پر ڈال دیتے ہیں۔

تاہم سعودی عرب خود بھی اسلام کے سخت ترین پہلو کو فروغ دیتا ہے البتہ یہ القاعدہ اور داعش جتنا سخت نہیں۔

مثال کے طور پر 2015 میں شاہ سلمان نے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے عالم دین ذاکر نائیک کو 'خدمت اسلام ایوارڈ' سے نوازا۔ ذاکر نائیک کا موقف ہے کہ امریکا ایک دہشتگرد ریاست ہے جس کا قبضہ مٹھی بھر یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے۔

رواں ماہ سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی نے سعودی امام سعد بن عتیق العتیق کے ایک گھنٹے پر مشتمل چار پروگرامز نشر کیے جن میں انہوں نے خدا سے دعا کی کہ وہ علویوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو سزائیں دے۔

واشنگٹن میں 'فائونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز' کے ایک سینئر عہدے دار ڈیوڈ وائن برگ نے مجھے بتایا کہ سعودیوں نے 2014 میں شدت پسندانہ اور بنیاد پرستانہ نظریات کے خاتمے کیلئے امریکا کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر عمل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت یہ موقف اختیار کرے گی کہ وہی دہشتگردی کی سب سے پہلی شکار ہے تاہم سعودی عرب کی اشتعال انگیزی خود بھی مملکت میں دہشتگری کی ایک وجہ ہے۔

یہ تمام باتیں نائن الیون اور 28 صفحات پر مبنی رپورٹ سے وابستہ ہیں، اگر امریکی انٹیلی جنس حکام ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس سعودی عرب کی جانب سے نائن الیون کے دہشتگردوں کی مالی امداد یا معاونت کے کوئی شواہد نہیں ہیں تو پھر یہ طے ہے کہ سعودی عرب کو اس میں پھنسایا گیا۔

لیکن ایک طریقے سے سعودی عرب مجرم بھی ہے، سعودی حکومت کی جانب سے شدت پسندی کا شکار ہونے کارونا بھی رویا جاتا اور اس نے کئی بار ایسے نظریات کو بھی فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے دہشتگری کو ایک عذر اور جواز ملتا ہے۔

یہ خبر 2 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں