ترکی بغاوت: 'بھائی کو بھائی کا خون نہیں بہانا چاہیے'

16 جولائ 2016
باسفورس پل پر فوج کے ساتھ چھڑپ کے بعد لوگ بھاگ رہے ہیں، ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران 60 افراد ہلاک ہوئے—فوٹو/ اے ایف پی
باسفورس پل پر فوج کے ساتھ چھڑپ کے بعد لوگ بھاگ رہے ہیں، ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران 60 افراد ہلاک ہوئے—فوٹو/ اے ایف پی

استنبول: ترک عوام نے فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادی، عام طور پر عوام کو فوج کا خوف ہوتا ہے لیکن ترکی میں عوام نے فوجی اہلکاروں کے دلوں میں اپنا ڈر بٹھادیا۔

واضح رہے کہ رات گئے ترک فوج کے ایک باغی گروپ نے ملک میں مارشل لاء کا اعلان کیا تھا، تاہم صدر رجب طیب اردگان کی کال کے بعد عوام سڑکوں پر آئے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔

فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد جب فوجی اہلکار تقسیم اسکوائر پر تعیناتی کے لیے جارہے تھے تو ان کے دل میں یہ خوف تھا کہ وہاں موجود عوام ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔

2013 میں یہی تقیسم اسکوائر تھا جہاں ہزاروں لوگ اُس وقت وزیراعظم کے عہدے پر فائز رجب طیب اردگان کے خلاف جمع ہوئے تھے لیکن اب حالات مختلف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں فوجی بغاوت ناکام، 60 افراد ہلاک

آج شہری حکومت کے حق میں اور فوج کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور تقسیم اسکوئر 'ملٹری گیٹ آؤٹ' کے نعروں سے گونج رہا تھا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 38 سالہ دوگن کا کہنا ہے کہ لوگ فوجی حکومت سے ڈرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ آمر کی حکومت میں کیا ہوتا ہے۔

فوج کے خلاف سڑکوں پر آنے والے لوگ فوجی ہیلی کاپٹرز کو دیکھ کر نعرے لگارہے تھے، جب فوجی اہلکاروں نے فائرنگ شروع کی تو اُس وقت مناظر انتہائی خوف ناک تھے۔

متعدد افراد زخمی ہوئے، ایمبولینسوں کی روشنی میں مشتعل شہریوں کے چہرے نمایاں ہورہے تھے، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے 'فوج نے ایسا کیا، وہ قاتل ہیں'۔

فوجی اہلکاروں نے اُن افراد پر بھی فائرنگ کی جو پیدل ہی فتح سلطان محمد پل عبور کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

افرا تفری کا عالم

فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی خبریں سامنے آتے ہی دکانیں بند ہونا شروع ہوگئیں، اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کا رش لگ گیا، لوگ پریشان تھے کہ پتہ نہیں کل کیا ہوگا۔

استنبول میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار شہری پانی خرید کر اپنے گھروں کو جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور گھروں سے ٹی وی پر چلنے والی بریکنگ نیوز کی آوازیں آرہی تھیں۔

فوجی بغاوت کی خبریں آتے ہی استنبول کے کچھ علاقے سناٹے میں ڈوب گئے، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد عوام جمہوریت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر آگئے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔

یورپ اور ایشیاء کو ملانے والے دونوں پلوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آرہی تھیں تاہم ایک بیئر بار میں کچھ نوجوان کسی بھی صورت میں اپنے ویک اینڈ کو برباد نہیں کرنا چاہتے تھے اور وہ بار میں ہی موجود رہے۔

ایک شہری نے کہا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر ملک پر فوج کا قبضہ ہوجائے، ترکی میں کئی بار فوجی بغاوت ہوئی ہے، میں اس کے خلاف ہوں۔

اس شخص نے اپنے بازو پر بنا کمال اتاترک کا ٹیٹو دکھاتے ہوئے کہا کہ فوجی حکومت ترکی میں نہیں چل سکتی۔

ایک اور شخص نے کہا کہ دیکھیں فوج کے آنے کی وجہ سے یہ جگہ بالکل خالی ہے حالانکہ عام طور پر یہاں ہزاروں لوگ ہوتے ہیں، آمرانہ حکومت اچھی نہیں ہوتی اس سے ملک 20 سال پیچھے چلا جائے گا، بھائی کو بھائی کا خون نہیں بہانا چاہیے۔

اچانک بیئر بار کے مالک نے آواز لگائی، 'سرکاری ٹی وی پر فوجی بغاوت کا اعلان ہوگیا، مارشل لاء لگ گیا'، یہ سننا تھا کہ بار میں موجود لوگ سیکنڈز میں غائب ہوگئے، کرسیاں اٹھالی گئیں اور جیسے تیسے بار بند کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں