(گزشتہ سے پیوستہ)


کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ عنوان ’سفارت کاری‘ تھا اور ہماری تو سات نسلوں میں کوئی سفارت کار نہیں گزرا۔ ترکی کے لالچ میں یہاں تک پہنچ تو گئے تھے، اب کیا کیا جائے؟

اپنی پھوٹی قسمت کو کوس ہی رہے تھے کہ آڈیٹوریم میں وائے فائے کا پاس ورڈ ہاتھ آ گیا۔ یقین کیجیے، اتنی خوشی حاتم طائی کو شہزادی حسن بانو سے مل کر نہیں ہو گی جتنی اس سمے ہم نے محسوس کی۔

آغاز مراکش سے تعلق رکھنے والے پروفیسر بینس نے کیا جو منتظم اعلیٰ بھی تھے۔ انہوں نے سفارت کاری کی مختصر تاریخ اور کچھ دلچسپ واقعات سنائے۔ بعد ازاں امریکی سفارت خانے کی نمائندہ ایک خاتون نے کاغذ پر لکھی تحریر پڑھنے کا شاندار مظاہرہ کیا۔

ان کے بعد ترکی میں جنوبی افریقہ کے سفیر نے اپنے ملک کا تعارف کرایا اور افریقی سفارت کاروں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ اس دوران ہم اپنے گردونواح میں موجود خواتین و حضرات پر مشتمل WhatsApp گروپ میں گفتگو کرتے رہے۔

کارروائی شروع ہونے کے کچھ دیر بعد آدھے شرکاء نیند کی وادیوں میں محو تھے لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ سوتے ہوؤں کی تصاویر کھینچ کر WhatsApp پر ڈالی جائیں۔ اس تماشے کے دوران ہمارا تعارف ’گلینا‘ نامی کرد دوشیزہ سے ہوا جو برطانیہ کے کسی بینک میں تعینات تھی۔ ظہرانے کا اہتمام یونیورسٹی میں ہی کیا گیا تھا اور کھانے کا نام سنتے ہی سب کی نیند رفو چکر ہو گئی۔

ایتھنوگرافی میوزیم، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ Elelicht
ایتھنوگرافی میوزیم، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ Elelicht

یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ہم نے پھیکا ترین کھانا کھایا (اور پانچ روز تک کھاتے رہے) جو روایتی ترکی پکوان نہ تھا۔ کھانے کے بعد ایک سیشن امریکآ میں مقیم ترک شہریوں کے لیے ایک تنظیم کی دو نمائندہ خواتین نے حاضرین کو (انگریزی زبان میں) لوری سنائی۔

دن کی آخری باقاعدہ کارروائی کے لیے ہم بسوں میں سوار ہو کر انقرہ کے مضافات کی جانب رواں ہوئے۔ راستے میں یونان سے آئی ایلینی سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔

عثمانی بادشاہت کے ختم ہونے کے بعد انقرہ کو ترکی کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا تھا۔ انقرہ ترکی میں استنبول کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے۔

انقرہ اپنا پرانا نام انگورہ بتاتا ہے۔ اس شہر میں کافی میوزیم موجود ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ آخر صدیوں کی تاریخ جو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر تہذیبوں کا مسکن بھی کہیں تو کوئی غیرمنصفانہ قول نہ ہوگا۔

ساڑھے تین ہزار سالوں پر محیط انقرہ کی تاریخ میں تہذیبیں تو آئی اور گئیں لیکن اپنے پیچھے آثار و نوادرات چھوڑ گئیں۔ انقرہ میں متعدد میوزیم موجود ہیں جہاں مختلف ادوار کے تاریخی باب محفوظ ہیں۔

اناطولیہ تہیذیبوں کے میوزیم میں موجود نوادرات — کری ایٹو کامنز/Nevit Dilmen
اناطولیہ تہیذیبوں کے میوزیم میں موجود نوادرات — کری ایٹو کامنز/Nevit Dilmen

ان میوزیمز میں سے انقرہ ایتھنوگرافی میوزیم، میوزیم برائے اناطولیہ تہذیبیں، اسٹیٹ آرٹ اینڈ اسکلپچر میوزیم، جنگِ آزادی میوزیم، محمد عاقف لٹریچر میوزیم شامل ہیں۔

ایتنھو گرافی یا علم ثقافت و بشریات سے جڑے میوزیم میں انقرہ اور اس کے گرد نواح میں اناطولیہ کی تہذیبوں کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔ اس میوزیم سے ہمیں ان قدیم تہذیبوں کے لوگوں کی طرز زندگی کا ایک مفصل خلاصہ مل جاتا ہے۔

جولین مرتد کا ٹاور اور انقرہ کا قلعہ بھی ایک سیاح کے لیے گھومنے کی بہترین جگہوں میں سے ہیں۔

اس کی بنیادی تعلیم اقتصادیات میں تھی لیکن وہ ایک سال نیدر لینڈ میں یونانی سفارت خانے میں رضا کار کے طور پر کام کرنے کا تجربہ رکھتی تھی۔ ہماری منزل انقرہ کا سب سے وسیع باغ انگور تھا۔ وہاں سب سے پہلے دختر عناب کی ’چکھائی‘ کا مرحلہ درپیش تھا اور ہم یہ شوق فرمانے سے قاصر۔

البتہ ساقیان کی وضع قطع دیکھ کر نصرت فتح علی خان کی آواز کانوں میں گونجنے لگی: ’پیتا بغیر اذن، یہ کب تھی مری مجال‘۔ اقبال بھی بہت یاد آئے: ’میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی، شیخ کہتا ہے کہ یہ بھی ہے حرام اے ساقی‘۔

اس مرحلے کے بعد ہم نے دختر عناب کشیدہ ہونے کے مراحل سے آگاہی حاصل کی اور پھر اس باغ کے مالک کی طرف سے عشائیہ (بمعہ کلاسیکی موسیقی) کا لطف اٹھایا۔

جولین مرتد کا ٹاور، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ Stephan Garcia
جولین مرتد کا ٹاور، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ Stephan Garcia

اس سفر سے کچھ ماہ قبل ہم لاہور میں میٹرو بس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کر چکے تھے اور اس موقعے کی ڈھیروں تصاویر ہمارے پاس موجود تھیں جو ایک البانوی دوشیزہ نے کہیں دیکھ لیں اور پھر انہوں نے اصرار کر کے تمام تصاویر کا جائزہ لیا اور ہم سے تصویر کشی کے متعلق بحث کا آغاز کیا۔

البانیہ سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں رہائش پذیر تھیں (اور اب تک ہیں)۔ ایلینی بھی قریب ہی بیٹھی تھیں اور ان سے کلاسیکی یوروپین موسیقی اور حجاب کے موضوع پر بات چیت ہوئی۔

عشائیے کے دوران اس باغ کے مالک سے تبادلہ خیال کا موقعہ ملا۔ موصوف لگ بھگ اسی برس کے تھے اور ایک دنیا دیکھ رکھی تھی۔ ہم نے پاکستان کا ذکر کیا تو کہنے لگے:’میں ساٹھ کی دہائی میں کراچی آیا تھا اور مجھے وہ شہر بہت اچھا لگا۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ تمہارا ملک مولویوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔‘ وہ خود کیمالسٹ سیکولر تھے اور اپنی پہچان پر فخر کرتے تھے۔

انہوں نے کئی ترک سیاست دانوں کے دلچسپ واقعات سنائے اور حکمران جماعت (طیب اردوان کی اک پارٹی) کی پالیسیوں پر سخت اعتراض کیا۔ ہماری ترکی آمد سے کچھ ماہ قبل استنبول میں غیزی پارک کے گرد مظاہرے ہوئے تھے اور بزرگوار نے حکومت کے ردعمل (یعنی احتجاج کرنے والوں پر بلااشتعال تشدد) کی مذمت کی۔ ہم اس دعوت کے بعد اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔

اسٹیٹ آرٹ اینڈ اسکلپچر میوزیم، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ Husshho
اسٹیٹ آرٹ اینڈ اسکلپچر میوزیم، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ Husshho

ہوٹل پہنچ کر بہت سوں کو (بشمول ہمارے) یہ خیال آیا کہ باتوں کے چکر میں کھانا تو بہت کم لوگ کھا سکے تھے لہٰذا ایک قریبی ڈھابے کی جانب ٹیکسیوں میں ٹھنس کر روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو شیشہ کی سہولت موجود تھی لیکن کھانے کی اشیاء محدود تھیں۔ ہم نے فرنچ فرائز پر اکتفا کیا اور دیگر احباب نے متنوع کھانے چکھے۔

درجہ حرارت دن کی حدت کے بعد کم ہو چکا تھا اور ہمیں بادل ناخواستہ ڈھابے کے مالکان سے کمبل ادھار مانگنے پڑے جو دو یا تین کرسیوں پر بیٹھے افراد کے لیے کافی تھے۔ ہمارے ساتھ ہندوستان سے گورَو، نیدرلینڈ کی ایلزے اور میکسکو کی صوفیا تھیں (ان نیک بیبیوں کا تذکرہ بعد میں تفصیل سے آئے گا)۔

ہم سب پہلی دفعہ ایک دوسرے سے مل رہے تھے کیونکہ پہلے روز کی ہل چل اور کانفرنس کے دوران وقت کی کمی کے باعث ہر کسی سے تعارف کا موقعہ نہیں مل سکا تھا۔ ہماری ’راہنمائی‘ کے لیے چانکایا یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو ہمارے ساتھ تفویض کیا گیا تھا۔

وار آف انڈیپنڈینس میوزیم، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ LoudHmen
وار آف انڈیپنڈینس میوزیم، انقرہ — کری ایٹو کامنز/ LoudHmen

وہ ہمارے ساتھ ڈھابے تک گیا اور مالکان سے بات چیت میں ہماری مدد کی (کیونکہ ہم ترکی زبان سے واقف نہ تھے اور ترک شہریوں کو انگریزی کم ہی آتی ہے)۔

اس کا نام ییٹ (Yeet) تھا اور وہ ایک نہایت دلچسپ انسان تھا (ہم ایک سال بعد تفریحی دورے پر ترکی گئے تو اس سے خصوصی ملاقات ہوئی)۔ وہاں موجود شرکاء نے اپنے دکھ سکھ بانٹنے شروع کیے تو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ کانفرنس سے ایک دن قبل انقرہ پہنچ چکے تھے لیکن منتظمین نے انہیں زیادہ لفٹ نہیں کروائی تھی اور وہ اپنے خرچ پر کسی دوسرے ہوٹل میں رہنے پر مجبور ہوئے۔

یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ شرکاء منتظمین کی نااہلی اور ہوٹل میں صفائی کے فقدان کے باعث واپس گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ ہماری ایک انگریز ساتھی ایلس کی ڈھابہ مالکان سے آرڈر غلط کرنے پر توتو میں میں ہوگئی۔ جب اس کو توتکار کے بعد صحیح چیز مل گئی تو مالکان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت اس سے (اصرار کے باوجود) پیسے نہیں لیے۔

انقرہ کا قلعہ — کری ایٹو کامنز / User:Peace01234
انقرہ کا قلعہ — کری ایٹو کامنز / User:Peace01234

ہمارے عظیم الشان ہوٹل میں اے سی یا پنکھے کی سہولت میسر نہ تھی لیکن انقرہ کی ٹھنڈی راتوں میں کھلی کھڑکی کا سہارا کافی تھا۔ اس عیاشی کا ایک نقصان زبردستی کی صبح خیزی تھی چونکہ ہمارا ہوٹل عین سڑک کے کنارے موجود تھا اور صبح سویرے ٹرکوں کے ہارن ہمیں نیند سے بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیتے۔

رات دیر تک ڈھابے پر گپ شپ کے بعد صبح ناشتے کے لیے اٹھنا ایک عذاب لگا۔ ہوٹل کی طرف سے روایتی ترک ناشتہ پیش کیا گیا یعنی زیتون، شہد اور پنیر کی مختلف اشکال ایک ڈبل روٹی کے ہمراہ۔ پاکستانی ناشتوں کے عادی شکم کے لیے یہ ناشتہ پنجابی محاورے کے مطابق صرف داڑھ ہی گیلی کرسکتا تھا۔

(جاری ہے۔)

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں