اسلام آباد: ماہرِ قانون اور سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے کے بعد عدالت کے لیے بغیر کسی کمیشن کے خود سے تحقیقات کروانا ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ ان دونوں جماعتوں کے پاس پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کی نااہلی کے لیے درخواستوں میں جو مواد موجود ہوگا، اُس پر سماعت کے لیے عدالت آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالتِ عظمیٰ کو بہت وسیع اختیارات حاصل ہیں، لیکن یہ ایک غیر معمولی نوعیت کا معاملہ ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو حسین حقانی کے میمو گیٹ اسکینڈل میں سپریم کورٹ نےان اختیارات کا استعمال ایک بڑے تناظر میں کیا تھا اور کسی قانون سازی اور کمیشن کا انتظار کیے بغیر خود ہی ایک حکم کے ذریعے اس سارے معاملے پر تحقیقات کروائی تھیں۔

تاہم انھوں نے کہا کہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں سے سپریم کورٹ کا ایسے معاملات پر رویہ کچھ محتاط رہا ہے۔

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں عدالت میں جو درخواستیں دائر کرنے جارہی ہیں ان میں یہی کہا جائے گا کہ وزیراعظم نے غلط طریقے سے بیرونِ ملک اثاثے بنائے جو کہ ایک الزام ہے اور اس کو ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پاناما لیکس بھی ایک غیر مصدقہ مواد ہے جس کی تحقیقات ہونا ضروری ہیں، لہذا ایک ایسے وقت میں جبکہ اپوزیشن کے مطالبہ پر کوئی کمیشن اب تک نہیں بن سکا تو سپریم کورٹ کا خود پورے معاملے کی تحقیقات کروانا ایک سوالیہ نشان ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بظاہر یہ ایک ایسی چیز ہے جو عام حالات میں نہیں ہوتی۔

سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ جب یہ درخواستیں دائر کی جائیں گی تو وزیراعظم کی جانب سے یہی دلیل سامنے آئے گی کہ قانون کے مطابق یہ معاملہ براہ راست سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور اس پر یا تو الیکشن کمیشن سماعت کرسکتا ہے یا دوسری صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی اس کو سننے کے اہل ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور جماعت سلامی کے امیر سراج الحق نے پاناما لیکس پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا تھا۔

گذشتہ روز بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے بعد اب ہم وزیراعظم کے خلاف منی لانڈرنگ کے ثبوت لے کر سپریم کورٹ جارہے ہیں اور اس کے لیے پیٹیشن بھی تیار کرلی گئی ہے۔

عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب تحریک انصاف کرپشن کے خلاف پہلے ہی اپنی احتساب تحریک کا آغاز کرچکی ہے۔

پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا، تاہم پاناما لیکس کے حوالے سے ٹرمز آف ریفرنسز(ٹی او آرز) پر اتفاق نہ ہونے پر تحریک انصاف نے 7 اگست کو احتساب تحریک کا آغاز کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کی 'تحریک احتساب' کا آغاز

واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس کمیشن کے ٹی او آرز پر حکومت اور حزب اختلاف میں اب تک اتفاق نہیں ہو سکا۔

تبصرے (0) بند ہیں