ایم کیو ایم کے 13 دفاتر مسمار، 218 سیل

اپ ڈیٹ 27 اگست 2016
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن دفاتر کو مسمار کیا گیا وہ غیر قانونی طور پر قائم تھے—فوٹو/ اے پی
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن دفاتر کو مسمار کیا گیا وہ غیر قانونی طور پر قائم تھے—فوٹو/ اے پی

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کی 22 اگست کو پاکستان مخالف تقریر کے بعد سے حکومت کی جانب سے متحدہ کے غیر قانونی دفاتر کو سیل اور مسمار کیے جانے کا سلسلہ جاری رہے۔

ڈان نیوز کے مطابق ریلوے کالونی، آرام باغ اور کھارادر میں بھی ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کردیے گئے۔

اب تک ایم کیوایم کے 13دفاتر گرائے جاچکے ہیں جبکہ 218 آفس سیل بھی کردیے گئے ہیں، انتظامیہ کا کہناہے کہ گرائے جانے والے تمام دفاتر سرکاری املاک پر تعمیر کئے گئے تھے۔

پولیس کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ضلع ویسٹ میں37،ایسٹ میں 35 جبکہ کورنگی میں 38 ایم کیوایم کےدفاترکوسیل کیا جاچکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ضلع وسطی میں ایم کیو ایم کے 68، جنوبی میں 25، ملیر میں 15 دفاتر کو سیل کیے جاچکے ہیں۔

قانون نافذ کرنے اداروں نے پاک کالونی میں ایک مکان میں قائم کارخانے کو بھی ایم کیو ایم کا یونٹ آفس سمجھ کر سیل کردیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق پاک کالونی تھانے کی حدود ولایت آباد نمبر ایک کا مکان جس میں لیتھ مشین کا کارخانہ 35 سال قائم ہے اسے ایم کیو ایم کا یونٹ آفس نمبر 186 مان کر پولیس اور رینجرز نے سیل کردیا۔

کارخانے کی دیوار پر متحدہ کے قائد کا پوسٹر لگا تھا جس کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار اسے ایم کیو ایم کا دفتر سمجھے اور سیل کردیا۔ کارخانے کا مالک شمس الحق گلبہار کا رہائشی ہے اور سیل کھلوانے کیلئے وہ دو روز سے پاک کالونی تھانے اور ڈی سی ویسٹ آفس کے چکر لگا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم خود کو اپنے قائد سے الگے کرے،حکومتی تنبیہہ

شاہ فیصل کالونی میں سیل کیے جانے والے دفتر میں موجود جانوروں کو نکال لیا گیا اور وہاں موجود مگرمچھوں کو کراچی کے چڑیا گھر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ایم کیو ایم کے مزید 5 دفاتر کو مسمار کیا گیا جبکہ میڈیا ہائوسز پر حملے کے الزام میں کئی خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا۔

خورشید بیگم میموریل ہال کو بھی گرانے کا فیصلہ؟

کراچی میں خورشیدبیگم میموریل ہال کو بھی گرانےکا فیصلہ کرلیا گیا، ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خورشید بیگم سیکریٹریٹ مسمار کرنے کی تجویز دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے، فاروق ستار

کے ڈی اے ڈپارٹمنٹ سے اس زمین کی تفصیل طلب کرلی گئی جہاں خورشید بیگم میموریل ہال تعمیر ہے، ذرائع کےمطابق خورشید بیگم سیکریٹریٹ رفاعی پلاٹ پر قائم ہے۔

کے ڈی اے میں خورشید بیگم سیکریٹریٹ کا ریکارڈ تلاش کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے ، واضح رہے کہ نائن زیرو کے ساتھ ساتھ خورشید بیگم ہال کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔

غیر قانونی دفاتر گرائے جاتے رہیں گے، وزیر اعلیٰ سندھ

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ غیرقانونی طورپربنائے گئے ایم کیوایم کےدفاترگرائے جارہے ہیں اورگرائے جاتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 22 اگست کو میڈیا ہاؤسز پرحملوں کےبعد متحدہ سکیورٹی کیلئے مسئلہ بن گئی تھی، لوگوں کوپریشانی سےبچانےکیلئے سڑکوں کی مرمت رات میں کی جارہی ہے۔

مراد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں جہاں کہیں بھی تجاوزات قائم کی گئی ہیں انہیں ختم کرنے میں کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔

میڈیا ہاؤسز پر حملے کی ملزم خواتین کا ریمانڈ

کراچی کی عدالت نے میڈیا ہاؤسز پر حملے کی ملزم خواتین کو 4 روزہ ریمانڈپرپولیس کےحوالے کردیا۔

ایم کیوایم کی خواتین کارکنوں رابعہ ،عینی اور سمیرا کوانسداددہشت گردی کی عدالت میں پیش کیاگیا، پولیس کی طرف سے تینوں خواتین پر 22 اگست کو نجی ٹی وی چینل اے آروائی کےدفتر پرحملہ، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:اے آر وائی کے دفتر پر حملہ، فائرنگ سے ایک شخص ہلاک

عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں خواتین کو4 دن کے ریمانڈ پرپولیس کی تحویل میں دے دیا۔

ایس ایس پی ساؤتھ (انوسیٹی گیشن) عدیل چانڈیو نے بتایا کہ سمیرا کو برنس روڈ سے گرفتار کیا گیا جبکہ رابعہ اور قراۃ العین کو ڈیفنس سے حراست میں لیا گیا اور یہ تینوں ایم کیو ایم کی کارکن ہیں۔

دفاتر مسمار ہونے پر متحدہ کا احتجاج سے گریز

کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں ایم کیو ایم کے دفاتر سیل اور مسمار کیے جانے کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ نے احتجاج سے گریز کیا ہوا ہے۔

پارٹی کا موقف ہے کہ اسے دفاتر کو مسمار کیے جانے پر تحفظات ہیں تاہم اس کے خلاف احتجاج نہیں کیا جائے گا بلکہ قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ ضلع شرقی میں ایم کیو ایم کے دفاتر کو سیل اور مسمار کیا گیا ہے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ جو دفاتر سیل ہیں انہیں بھی بالآخر گرادیا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے دفاتر کو اس لیے مسمار کیا جارہا ہے کیوں کہ وہ قبضے کی زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

تاہم سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے جن دفاتر کو سیل کیا گیا ان میں سے سب غیر قانونی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ان دفاتر کو بھی گرارہی ہے جو گزشتہ 30 برس سے وہاں موجود تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اس اقدام کے خلاف سڑکوں پر نہیں نکلے گی بلکہ نائن زیرو سمیت دیگر دفاتر کو دوبارہ کھلوانے کیلئے قانونی راستہ اختیار کرے گی۔


تبصرے (0) بند ہیں