مدارس اور مساجد کا شہر، اگھم کوٹ

اگھم کوٹ: علم اور تجارت کا مرکز

ابوبکر شیخ

پورے ستائیس برس کے بعد میں ایک بار پھر اگھم کوٹ جا رہا تھا۔ میں جب خود پر سے گزری نصف صدی کے بارے میں سوچتا ہوں تو نہ سمجھ میں آنے والی حیرانگی کی ایک لہر دوڑ سی جاتی ہے۔ وقت انسان کو روند کے رکھ دیتا ہے۔

پہلے جب میں اس ویران سے شہر آیا تھا تب جنوری کے سرد دن تھے۔ ہماری گاڑی پورے راستے ہچکولے کھاتی اور دھول اڑاتی رہی مگر منزل تک دیر سے ہی صحیح لیکن پہنچا دیا تھا۔

ہاں اب فرق یہ ضرور آیا ہے کہ لنک روڈ بن گئے ہیں اور بن کر اُکھڑ بھی گئے ہیں، لہٰذا اچھل کود اب تک بھی جاری ہے، بس مٹی آپ کی گاڑی سے باز رہتی ہے۔

اگھم کوٹ — تصویر ابوبکر شیخ
اگھم کوٹ — تصویر ابوبکر شیخ

اگھم کوٹ میں موجود مدرسے اور درگاہیں — تصویر ابوبکر شیخ
اگھم کوٹ میں موجود مدرسے اور درگاہیں — تصویر ابوبکر شیخ

مرکزی جامع مسجد اگھم کوٹ — تصویر ابوبکر شیخ
مرکزی جامع مسجد اگھم کوٹ — تصویر ابوبکر شیخ

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں نے پہلی بار اگھم کوٹ دیکھا تھا تو یہ اتنی بڑی سائٹ تھی کہ میں حیران رہ گیا تھا۔ آپ کی نظر جہاں تک جاتی اس قدیم شہر کے آثار بھی آپ کی نظر کے ساتھ چلتے۔

سلمان رشید اور میں سارا دن وہاں رہے، یہ وہ زمانہ تھا جب 35mm کے رول کیمرا میں پڑتے اور رول میں 36 تصویروں کی گنجائش ہوتی تھی۔ آپ کے پاس کیمرا کے بیگ میں کتنے بھی رول پڑے ہوں، مگر پتہ نہیں کیوں رول کے ختم ہونے کی ایک تلوار آپ پر ہمیشہ لٹکتی رہتی تھی اس لیے کلک تھوڑی احتیاط کے ساتھ کرنا پڑتا۔

اب کیمرا رول ایک بیتے زمانے کی کہانی ٹھہرے۔ اب صرف ایک پریشانی ہے کہ تصویر کتنے میگا پکسل کی ہوگی۔ تاہم ایک بار پھر 27 برس کے بعد میں ان عظیم الشان آثار کو اپنے کیمرا میں قید کرنے اگھم کوٹ آیا تھا۔

آپ اگر حیدرآباد سے ٹنڈوالہیار آئیں اور پھر گلاب لغاری کی جانب راستہ لیں، تو گلاب لغاری کے چھوٹے شہر سے قبل راستے کے مغرب میں آپ کو مسجدوں، مقبروں اور مدرسوں کے آثار نظر آئیں گے۔

مسجد اور مدارس کے آثار — تصویر ابوبکر شیخ
مسجد اور مدارس کے آثار — تصویر ابوبکر شیخ

مسجد سے شہر کے آثار — تصویر ابوبکر شیخ
مسجد سے شہر کے آثار — تصویر ابوبکر شیخ

اگھم کوٹ کے قدیم آثار — تصویر ابوبکر شیخ
اگھم کوٹ کے قدیم آثار — تصویر ابوبکر شیخ

اگر اس جگہ پر تھوڑا غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ ساری قدیم تعمیرات مٹی کے ٹیلوں پر کی گئی ہیں۔ ان ٹیلوں پر دورِ ماضی کی دیگر ایسی تعمیرات کے آثار بھی ہیں جنہیں وقت نے ہماری آنکھوں سے اوجھل کردیا۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلے گا کہ ساتویں صدی میں ’برہمن آباد‘ اور ’لوہانو‘ کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام تھا ’راجا اگھم‘۔ کہتے ہیں کہ اُن کی رہائش جس کوٹ میں تھی وہ اسی جگہ پر تھا۔

’چچ نامہ‘، آٹھویں صدی کی تصنیف ہے جس کا فارسی ترجمہ 1240 میں علی بن حامد کوفی نے کیا تھا۔ یہ کتاب سندھ کی تاریخ پر سب سے قدیم ماخذ ہے۔ اس کتاب میں تحریر ملتی ہے کہ،’’جب چچ بن سیلائج کی سہون کی مہم اپنے اختتام کو پہنچی تب برہمن آباد والے لوہانو کے بادشاہ اگھم یعنی، لاکھوں، سموں اور سہتوں کے حاکم کو پیغام بھیجا اور تابعداری کا کہا گیا۔‘‘

محمد بن قاسم کے حملے کے وقت یعنی آٹھویں صدی کی ابتدا میں اس قلعے کی فوجی اہمیت کے متعلق چچ نامے میں تحریر ہے کہ ’’محمد بن قاسم نے سلیمان بن نبھان قریشی کو حکم دیا تھا کہ تم کو راوڑ کے قلعے کی طرف جانا چاہیے۔ اس پر سلیمان نے عطیہ تغلبی کی کمان میں 500 سپاہیوں کو اگھم کوٹ میں مقرر کیا کہ راجا داہر کے بیٹے گوپی کا راستہ روکے جو راوڑ میں تھا۔‘‘

دسویں صدی میں دریائے سندھ کے چھ بہاؤ تھے جس کی وجہ سے جنوبی سندھ میں نہروں اور بندرگاہوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ اسی پانی کی فراوانی کی وجہ سے جنگلی حیات اور فصلیں اپنے عروج پر تھیں۔ یہ وہ ہی زمانہ تھا جب ’لوہانو‘ کے بہاؤ پر نصرپور، اگھامانو اور فتح باغ اہم بندرگاہیں تھیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اگھم کوٹ اور اس کے اطراف دریا پر مشہور گھاٹ تھے، بیوپار اچھا ہوتا تھا تو اگھم کوٹ کی بازاریں بھی بستی تھیں۔

اگھم کوٹ کے مدارس اپنی تعلیم کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان مشہور درسگاہوں کے مہتمم مخدوم اسماعیل سومرو تھے جو بنیادی طور پر ’کاٹھیاواڑ‘ کے رہنے والے تھے مگر یہاں کا علمی ماحول دیکھا تو یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے۔

مخدوم اسماعیل سومرو کی درگاہ کے ابتدائی گنبد — تصویر ابوبکر شیخ
مخدوم اسماعیل سومرو کی درگاہ کے ابتدائی گنبد — تصویر ابوبکر شیخ

مخدوم اسماعیل سومرو کی قبر — تصویر ابوبکر شیخ
مخدوم اسماعیل سومرو کی قبر — تصویر ابوبکر شیخ

مخدوم اسماعیل سومرو کا مزار — تصویر ابوبکر شیخ
مخدوم اسماعیل سومرو کا مزار — تصویر ابوبکر شیخ

’وتایو فقیر‘ کا خاندان بھی مخدوم صاحب کی بیعت پر مسلمان ہوا اور اگھم کوٹ کی ان ہی گلیوں، بازاروں اور محلوں میں چلتے اپنے شب و روز گزارتا اور اس نے اپنی مجذوبیت کی مستی میں جو باتیں کی وہ آج بھی لوگ بیان کرتے ہیں اور ان کی باتوں سے مثالیں دیتے ہیں۔

1522 میں جولائی کے گرم ترین دنوں میں شاہ بیگ ارغون، جنہوں نے قندھار پر بڑے چست اور شاطرانہ طریقے سے حکومت کی تھی، کابل میں ظفر کے قلعے سے بھاگ نکلے۔ اور جب سہون سے گجرات کو فتح کرنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجا کر اگھم کوٹ پہنچے تب پتہ چلا کہ بابر خوشاب تک آ پہنچا ہے۔ یہ سن کر سندھ کی حکومت چھن جانے کے خیال سے ان کی حالت خراب ہوگئی، دل میں درد اُٹھا اور اسی تکلیف میں سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔

تخت و تاج کی چاہت میں بھی عجیب کشش، چاہت اور بے وفائی چھپی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ باپ شاہ بیگ ارغون کی ابھی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی کہ مرزا شاہ حسن کو تخت پر بٹھانے کی رسم ادا کر دی گئی۔ عید کی رات تھی، اگھم کے کوٹ کے ایک دالان میں باپ کا مردہ جسم پڑا تھا اور بیٹے کو تخت پر بیٹھنے کی مبارکیں دی جا رہی تھیں۔

میں جب اگھم کوٹ پہنچا تو مئی کا سورج آگ اُگل رہا تھا۔ دن کے دس بجے سورج کی تیز اور چندھیا دینے والی روشنی سارے لینڈ اسکیپ پر پھیلی تھی۔ دور دیکھنے کے لیے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا سا بنانا پڑتا۔ کچھ آثار تو اپنے اندر بڑا سحر رکھتے ہیں۔ ان میں ایک شفقت اور آسودگی ہوتی ہے جو ان میں پنہاں ہوتی ہے، بس سارا کچھ محسوسات کا ہی کھیل ہے۔

میں یہاں 27 جاڑوں کے گزر جانے کے بعد پہنچا۔ ’پتن والی مسجد‘ (سندھی میں پتن 'گھاٹ‘ کو کہتے ہیں) ان آثار میں سب سے پہلے آپ کی منتظر ہوتی ہے۔

ُپتن والی مسجد اگھم کوٹ — تصویر ابوبکر شیخ
ُپتن والی مسجد اگھم کوٹ — تصویر ابوبکر شیخ

اگر ہم مسجد کی قدامت کے بارے میں بات کریں تو اس کا فن تعمیرات بھی جامع مسجد سے ملتا جلتا ہے جو مغل دور کے فنِ تعمیر کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔

پھر دریا نے اپنا رُخ بدلا تو ہر سو ویرانیوں کا بسیرا ہو گیا۔ پانی نہیں رہا تو گھاٹ بھی نہیں رہے اور ان گھاٹوں پر بسی زندگی بھی بے رنگ سی ہوگئی۔

ان برسوں میں مسجد میں خستگی آگئی ہے اور کانٹے دار جھاڑیاں اُگ آئی ہیں۔ آگے مخدوم میاں محمد اسماعیل سومرو کے مزار سے پہلے ابتدائی دروازے کے طور پر ایک شاندار گنبد ہے، جس پر فارسی میں سنِ وفات تحریر ہے۔

مخدوم صاحب نے 996 ہجری بمطابق 1588 عیسوی میں وفات پائی۔ درگاہ پر کاشی کا انتہائی خوبصورتی سے جڑاؤ کام کیا گیا ہے اور مقبرے کے جنوب میں مسجد پر بھی کاشی کا انتہائی خوبصورت کام کیا گیا ہے۔

درگاہ کے مغرب میں ایک ایرانی نژاد بیگم کی قبر ہے جس پر کچھ برس پہلے چار دیواری بنائی گئی ہے، مگر یہ قبر قدیم ہے جس کے کتبے پر یہ تحریر ہے:

’’تاریخ فوت بی بی ماہم،

غرہ شعبان روز دوشنبہ

بوقت نماز سنہ ۱۷۰ط‘‘

قدیم قبر کا کتبہ — تصویر ابوبکر شیخ
قدیم قبر کا کتبہ — تصویر ابوبکر شیخ

قدیم بی بی ماہم کی قبر — ابوبکر شیخ
قدیم بی بی ماہم کی قبر — ابوبکر شیخ

اگر ہم ’ط‘ کو اہمیت نہ دیں تو یہ انتہائی قدیم کتبہ بن جاتا ہے۔یعنی ۱۷۰ ہجری۔ مگر اُس وقت فارسی کی تحریر یہاں مروج نہیں تھی اور اگر ’ط‘ کو ہم استعمال کرتے ہیں تو 1070 ہجری سن نکلتا ہے جو ارغون زمانے کا ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں پر کچھ مغل بادشاہ اپنے خاندانوں سمیت بھی مقیم رہے ہوں گے مگر کھدائی سے پہلے کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا، البتہ آپ اندازہ لگانے کا حق بجا رکھتے ہیں۔

اگر آپ مخدوم صاحب کی درگاہ کے آنگن سے جنوب کی طرف دیکھیں گے تو ایک بڑے شہر کے آثار دکھائی دیں گے۔

ساتھ ہی دور ایک مسجد کی خستہ دیواریں اور خستہ حال مرکزی گنبد آپ کو نظر آئے گا۔ پھر آپ جیسے ہی مخدوم صاحب کی درگاہ سے واپس آ کر ’پتن مسجد‘ سے جنوب کی طرف بڑھتے جاتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہونے لگتا ہے کہ کس طرح یہ جگہ اپنے وقت میں ایک بڑا اور عالیشان شہر رہی ہوگی۔

سندھ میں مکلی کے بعد سب سے زیادہ مسجدوں اور مدرسوں کی تعداد آپ کو یہاں پر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

مختلف علما کرام کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ
مختلف علما کرام کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ

قدیم شہر کے بکھرے آثار — تصویر ابوبکر شیخ
قدیم شہر کے بکھرے آثار — تصویر ابوبکر شیخ

کہتے ہیں کہ یہاں کے مدرسوں میں دینی مضامین، فقہ، شرح، حدیث، منطق، حکمت، حساب اور صرف و نحو کی تعلیم دی جاتی تھی اور یہاں تعلیم دینے والے بڑے نامور اساتذہ ہوتے تھے۔

ان مدارس کی بنیاد سمہ دورِ حکومت میں پڑی اور یہاں کے مدارس کی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں دور دور سے طالب علم اور علم کے پیاسے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔

ان طالب علموں کے کھانے کے لیے زمینوں پر اناج اُگایا جاتا تھا۔ مرزا باقی بیگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انتہائی کنجوس تھا؛ دو ٹکوں کے لیے لوگوں کی چمڑی اُتروا لیا کرتا تھا مگر اس نے اگھم کوٹ میں مدارس کے لیے اگائی جانے والی فصل پر لگان معاف کر دیا تھا۔

اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں مدارس میں رات گئے چراغ جلتے ہوں گے اور علمی بحث و مباحثے ہوتے ہوں گے۔

شاہ لُطف اللہ قادری جو سندھی کے بڑے شاعر تھے،ان کا کلام ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مرتب کر کے شایع بھی کروایا تھا انہوں نے بھی ان مدرسوں سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔

مرکزی جامع مسجد سے پہلے راستے پر تین قبوں والی ایک شاندار مسجد ہوا کرتی تھی، جسے میں نے 1988 میں دیکھا تھا تب اُس کے دو گنبد گر چکے تھے بس ایک مرکزی گنبد رہ گیا تھا۔

تین قبوں والی مسجد کی جگہ — ابوبکر شیخ
تین قبوں والی مسجد کی جگہ — ابوبکر شیخ

مرکزی جامع مسجد، اگھم کوٹ — ابوبکر شیخ
مرکزی جامع مسجد، اگھم کوٹ — ابوبکر شیخ

ؐمرکزی جامع مسجد، اگھم کوٹ — ابوبکر شیخ
ؐمرکزی جامع مسجد، اگھم کوٹ — ابوبکر شیخ

میں نے اُس مسجد کو ڈھونڈا مگر افسوس کہ اُس کی گری ہوئی دیواریں ہی مجھے دیکھنے کو ملیں۔

خاردار جھاڑیاں ان دیواروں میں سے اُگ آئی تھیں۔ دیواریں اپنی بے قدری کا رونا رو رہی تھیں۔

پھر جب مشرق جنوب کی طرف بڑھتے ہیں تو ایک مسجد راستے کے مشرق میں نظر آتی ہے جو مٹی کے ایک ٹیلے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ وہاں بہت سارے ٹیلے ہیں۔ پھر دور سے نظر آنے والی مرکزی جامع مسجد آپ کے نزدیک آ پہنچتی ہے۔

آپ ٹیلوں پر چڑھتے ہوئے مسجد تک پہنچتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق لکھتے ہیں،’’مسجد مشرقی فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ مسجد کا محراب مضبوط پیلے پتھر کا بنا ہوا ہے جس کے دونوں کونوں پر ستون بنائے گئے ہیں اور اعلیٰ نقش و نگاری کی گئی ہے یہ محراب سنگتراشی کا نازک و نفیس اور خوبصورت نمونہ ہے۔

محراب کے اوپر قرآنی آیتوں کو تراشا گیا ہے ساتھ ہی کاریگروں کے نام بھی کنندہ ہیں۔ ساری عبارت عربی اور فارسی میں ہے اور مسجد کی تعمیر کی تاریخ بھی تحریر ہے جو اس طرح درج ہے۔ ’’خرد گفت تاریخ بی وقتی۔ کہ جامع جہایاں جنتی۔’’

قطعہ تاریخ ’’جامع جہایاں جنتی‘‘ سے مسجد کی تعمیر کا برس 797 ہجری نکلتا ہے۔ اس مسجد کے جنوب اور شمال میں درویش داؤد اور میاں ھموں کے مشہور مدارس تھے جن میں پانچ پانچ سو لوگ علم حاصل کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ ‘‘

مگر اب یہاں کوئی محراب نہیں کیونکہ 1988 میں جب میں نے اس محراب کو مکمل دیکھا تھا اُس وقت اس شاندار مسجد کی دو دیواریں بھی سالم تھیں۔

جامع مسجد کی محراب۔ 1988 — تصویر ابوبکر شیخ
جامع مسجد کی محراب۔ 1988 — تصویر ابوبکر شیخ

اگھم کوٹ میں موجود علما کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ
اگھم کوٹ میں موجود علما کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ

مگر اب کُچھ سالم نہیں۔ ہاں البتہ مسجد کا چھوٹا سا داخلی گنبد اب تک خستہ حالی کے باوجود کھڑا ہے۔

وہ مدارس جن کا ذکر ’تحفتہ الکرام‘ میں کیا گیا ہے، اُن مدارس کے آثاروں کے طور پر اب صرف گلتی سرخ اینٹیں ہی رہ گئی ہیں۔

علم کے گہوارے اس شہر کے مدارس کو ویران کرنے میں جہاں مدد خان پٹھان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی وہاں ان قدیم آثار کو برباد کرنے میں دور حاضر بھی پیچھے نہیں ہٹا۔

ایک زمانے میں جہاں حد نظر تک قدیم آثار کے نشان دکھائی دیتے تھے، اب وہ سُکڑ کر کلومیٹرز سے چند ایکڑ تک محدود ہیں۔

جہاں کبھی تجارتی اور رہائشی علاقوں کے آثار تھے وہاں اب ہری بھری فصلیں لہلہاتی ہیں۔ آثاروں کے بیچوں بیچ پکی سڑکیں بن گئی ہیں۔ لوگ قدیم آثار کی اینٹیں نکال کر گھر بناتے جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کا تو جیسے اس ملک میں وجود ہی نہیں ہو۔

1988 میں لی گئی تین گنبد والی مسجد کی تصویر — تصویر ابوبکر شیخ
1988 میں لی گئی تین گنبد والی مسجد کی تصویر — تصویر ابوبکر شیخ

1988 میں اگھم میں کھینچی گئی ایک تصویر — تصویر ابوبکر شیخ
1988 میں اگھم میں کھینچی گئی ایک تصویر — تصویر ابوبکر شیخ

گزشتہ ستائیس برسوں نے ان آثاروں کو روند کر رکھ دیا ہے۔

میں شاید خوش نصیب تھا کہ 27 برس پہلے آیا۔ اس لیے میرے پاس اُس وقت کی نشانیاں تین گنبدوں والی مسجد اور جامع مسجد کی سلامت محراب کی تصاویر محفوظ ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان آثار قدیمہ کے لیے آنے والے پچاس برس زیادہ اچھے ثابت نہ ہوں گے۔

مجھے لگتا ہے کہ جس رفتار سے ’ترقی’ کی راہوں میں ہم ان آثار کو روند رہے ہیں اگر یہی رفتار رہی تو شاید 20 برس بعد اگر میں دوبارہ واپس لوٹا تو ایک آدھ درگاہ کے سوا مجھے یہاں صرف سرسبز کھیت ہی ملیں گے اور بس۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔