افغان مہاجرین کے قیام میں مارچ 2017 تک توسیع

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2016
فارنرز ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والے افغان باشندوں کو چمن بارڈر پر افغان فوج کے حوالے کیا جارہا ہے—فوٹو/ پی پی آئی
فارنرز ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والے افغان باشندوں کو چمن بارڈر پر افغان فوج کے حوالے کیا جارہا ہے—فوٹو/ پی پی آئی

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے ایک بار پھر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی پاکستان میں قیام کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کرتے ہوئے انہیں 31 مارچ 2017 تک ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔

اس حوالے سے ہونے والے اجلاس کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ کابینہ نے ایکسٹینش آف پروف آف رجسٹریشن کارڈز (پی او آر) Tripartite Agreement کے تحت رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں مارچ 2017 تک توسیع کی منظوری دی۔

قبل ازیں حکومت کی جانب سے پی او آر کارڈ کے حامل افغان مہاجرین کی پاکستان میں قیام کی تاریخ میں 31 دسمبر 2016 تک توسیع کی گئی تھی۔

تاہم ماضی کے برعکس اس بار افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کا عمل حتمی تاریخ گزرنے سے قبل ہی مکمل کرلیا گیا۔

حکومت نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد ملک میں موجود تمام افغان باشندوں کی 31 دسمبر 2015 تک واپسی یقینی بنانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اس کے بعد سے ان کے قیام میں تین بار توسیع کی جاچکی ہے۔

اس ے قبل افغان مہاجرین کی واپسی کی تاریخ 30 جون رکھی گئی تھی جس میں توسیع کرکے 31 دسمبر 2016 کردیا گیا تھا اور اب اسے 31 مارچ 2017 تک بڑھادیا گیا ہے۔

اندازوں کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد غیر رجسٹرڈ مہاجرین پر مشتمل ہے۔

کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی باوقار واپسی کے لیے موزوں اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔

قیام کی مدت میں توسیع ملنے کے بعد افغان مہاجرین کو بہتر طریقے سے واپسی کی تیاریاں کرنے کے لیے تھوڑا اور وقت مل جائے گا۔

افغان مہاجرین نے درخواست کی تھی کہ ان کے قیام میں توسیع کی جائے کیوں کہ انہیں پاکستان میں اپنے کاروبار وغیرہ سمیٹنے کے لیے تھوڑا وقت چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کے قیام میں 6 ماہ کی توسیع

واضح رہے کہ مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال، غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور سرحد پر سخت نگرانی بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل پہلے ہی تیز ہوچکا ہے۔

افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب انہیں افغانستان جانے کے لیے دستاویز دکھانے پڑتے ہیں۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین(یو این ایچ سی آر) کی جانب سے رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین کے لیے امدادی رقم کو 200 ڈالر سے بڑھا کر 400 ڈالر فی کس کردیا گیا ہے جبکہ پاکستان نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ واپس جانے والے مہاجرین کو 3 سال تک مفت گندم فراہم کرے گا۔

مذکورہ آفر سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی کئی مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں:غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے دستاویزات کیلئے اہم فیصلہ

یواین ایچ سی آر کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ایک لاکھ کے قریب افغان مہاجرین افغانستان واپس جاچکے ہیں جو کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے واپس جانے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے افغان مہاجرین کی مشکلات کو آسان بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کو ہراساں کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے، یہ ہمارے مہمان ہیں اور ان کی واپسی کا منصوبہ ایسے انداز سے تیار کیا جائے گا کہ سرحد کے دونوں جانب رہنے والے لوگوں کے ذہنوں میں کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو‘۔

یہ بھی پڑھیں:’افغان مہاجرین کو ہر حال میں پاکستان سے جانا ہوگا‘

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے علاوہ یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ چونکہ بعض افغان مہاجرین جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں لہٰذا مقامی آبادی کا افغان مہاجرین کی جانب رویہ اچھا نہیں ہوتا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے وزارت برائے اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز کو ہدایت کی کہ وہ افغان مہاجرین کو درپیش خدشات کو دور کرنے کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور افغان نمائندوں سے مشاورت کریں۔

یہ خبر 10 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں