اسلام آباد: حکومت نے توانائی کے منصوبوں کی سیکیورٹی پر آنے والے اخراجات کا بوجھ بھی صارفین پر ڈالنے کا فیصلہ کرلیا جو ان سے بجلی کے ماہانہ بلوں کے ذریعے اس وقت تک وصول کیے جائیں گے جب تک یہ منصوبے جاری رہیں گے۔

اس بات کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) کے اجلاس میں کیا گیا جس کی سربراہی وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کی۔

اجلاس میں اسلامی سکوک بانڈز کے بین الاقوامی مارکیٹ میں اجراء کا بھی فیصلہ کیا گیا اور مارکیٹ کے رد عمل اور قیمت کی بنیاد پر اس کا حجم 50 کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک ہوگا البتہ حکومت نے بجٹ میں سکوک بانڈز کے لیے 75 کروڑ ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے۔

مزید پڑھیں:سی پیک:اربوں روپے کے کول پاور منصوبے کا لائسنس منسوخ

ڈان کو دستیاب دستاویز کے مطابق حکومت نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو ہدایات جاری کرے گی کہ وہ توانائی کے تمام آنے والے منصوبوں کی مقررہ لاگت میں ایک فیصد اضافے کی منظوری دے جسے بعد میں صارفین سے وصول کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ آنے والے دنوں میں توانائی کے بیشتر منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک) کے تحت تعمیر ہوں گے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق ’ای سی سی کے اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کی اس سمری کی منظوری دی گئی جس میں نیپرا کو توانائی منصوبوں کی سیکیورٹی کی مد میں مجموعی لاگت میں ایک فیصد یعنی ڈیڑھ لاکھ ڈالر اضافے کے حوالے سے پالیسی ہدایات جاری کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی اور یہ اضافی اخراجات تعمیراتی کام شروع ہونے سے لے کر پاور پرچیز ایگریمنٹ کی معیاد تک سالانہ بنیادوں پر تقسیم کیے جائیں گے‘۔

حکومت پہلے ہی ہائی لاسز، کم ریکوری، اسپیشل ڈیٹ سروسنگ اور ٹیرف ایکولائزیشن کی مد میں سرچارجز عائد کرکے 3.50 روپے فی یونٹ صارفین سے وصول کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سول ملٹری اختلاف سے سی پیک متاثر ہونے کا خدشہ؟

مذکورہ دستاویز کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف پلاننگ کمیشن کو اس بات کی اجازت دے چکے ہیں کہ سی پیک کے تمام منصوبوں کی مجموعی لاگت میں ایک فیصد اضافہ کردیا جائے تاکہ سی پیک منصوبوں کی حفاظت کے لیے تشکیل دی جانے والی فوج کی اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن کے اخراجات پورے ہوسکیں۔

حکومت نے ابتدائی طور پر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بجٹ میں 30 ارب روپے مختص کیے تھے اور پھر پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام کے تحت بننے والے تمام ترقیاتی منصوبوں کی مقررہ لاگت میں ایک فیصد اضافے کی اجازت دے دی۔

ذرائع کے مطابق دہشت گردی کے حالیہ واقعات، توانائی منصوبوں کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات اور ملک کی عمومی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر متعلقہ حکام کی جانب سے ان منصوبوں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔

گزشتہ دنوں ہونے والے ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے مبینہ طور پر سی پیک کی اہمیت پر زور دیا تھا اور اسے ملکی معیشت کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:46 ارب ڈالر: پاکستان فائدہ کیسے اٹھائے؟

تاہم توانائی منصوبوں کی لاگت میں سیکیورٹی کی مد میں ایک فیصد اضافے کا جلد فیصلہ ہونے کے باوجود اب تک اس حوالے سے ٹیرف میں تبدیلی کے حوالے سے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ توانائی اور کمیونیکیشن کے بیشتر منصوبے تکمیل کے مرحلے میں جاپہنچے اور ان منصوبوں کی سیکیورٹی پر آنے والے اخراجات کی وصولی کے لیے ٹھوس اقدامات بھی نہ کیے جاسکے۔

وزیر اعظم کا یہ موقف تھا کہ ان منصوبوں کے لیے اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن سمیت دیگر خصوصی فورسز کی تشکیل کے لیے فنڈز کی دستیابی کے علاوہ منصوبوں کی تکمیل کے بعد بھی ان فورسز کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ بنیادوں پر فنڈز درکار ہوں گے جس سے وفاقی بجٹ پر قابل ذکر دباؤ پڑے گا۔

لہٰذا وزیر اعظم نواز شریف نے وزارت پانی و بجلی کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان تمام منصوبوں کی مجموعی لاگت میں سیکیورٹی اخراجات کی مد میں ایک فیصد اضافہ کیا جائے جو اب تک مکمل نہیں ہوئے۔

وزیر اعظم نے یہ ہدایات بھی دیں کہ وزارت پانی و بجلی اور وزارت خزانہ پہلے ہی مکمل ہوجانے والے منصوبوں کے حوالے سے نیپرا کے ذریعے ٹیرف میں اضافے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے تاکہ جب تک یہ منصوبے چل رہے ہیں ان کی سیکیورٹی پر آنے والے متوازی اخراجات پورے کیے جاسکیں۔

ای سی سی نے وزارت پانی و بجلی کی ایک اور سمری کی منظوری دی جس میں نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کو اس بات کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایرانی کمپنی TAVANIR سے 74 میگا واٹ بجلی کی خریداری کے حوالے سے ٹیرف میں یکم جنوری تا 31 دسمبر 2016 تک توسیع کے لیے نیپرا سے رابطہ کرسکے۔

اس حوالے سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ایرانی کمپنی کو بجلی کی مد میں بقایا جات کی ادائیگی کے لیے موجودہ انتظامات کے تحت ہر سال 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کی منظوری دی جاتی ہے تاکہ نیپرا اسے کنزیومر ٹیرف کا حصہ بناسکے۔

ای سی سی نے وزارت خزانہ کی ایک سمری بھی منظور کی جس میں حبیب بینک لمیٹڈ کو چین کے علاقے ارومچی میں اپنی شاخ کھولنے کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

ای سی سی کے اجلاس میں کلاں اقتصادی اشاروں کا بھی جائزہ لیا گیا اور شرکاء کو بتایا گیا کہ رواں برس اگست میں مہنگائی کی شرح 3.56 فیصد رہی جو اگست 2013 میں 8.55 فیصد جبکہ 2011 میں 11.56 فیصد تھی۔

یہ خبر 24 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Sep 24, 2016 07:15pm
السلام علیکم: سی پیک کے سیکیورٹی اخراجات ملک کے تمام شہریوں سے وصول کیے جائینگے تو اس کا فائدہ بھی پورے ملک کو ہونا چاہیے۔ خاص طور ہمارے پیارے صوبے بلوچستان کو ۔ حال تو یہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکین اس کے روٹ سے مطمئن نہیں۔ جغرافیہ سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ کم اور زیادہ فاصلے والے روٹ کونسے ہیں۔ خیرخواہ