اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی) نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے حوالے سے اہم قدم اٹھاتے ہوئے ملک کے تمام بینکوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے چوتھے شیڈول میں موجود 2 ہزار 21 افراد سے وابستہ بینک اکاؤنٹس کو فوری طور پر منجمد کریں جن میں لاکھوں روپے موجود ہیں۔

ایس بی پی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ’تمام بینکوں، ڈیولپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشن اور مائیکرو فنانس بینکوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ قانون کے مطابق ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جن کے نام نیشنل کائونٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) کی جاری کردہ فہرست میں شامل ہیں‘۔

اے ٹی اے کا سیکشن 11-O اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ بینک اور متعلہ ادارے فہرست میں شامل افراد سے بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر وابستہ رقم اور جائیداد ضبط کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:'نامعلوم عناصر دہشت گردوں کے مالی معاون'

مذکورہ فہرست کی ڈان کو موصول ہونے والی کاپی کے مطابق ان 2 ہزار 21 افراد میں زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے رہنما اور ارکان شامل ہیں جن کے نام بینکوں کو مذکورہ ہدایات کے ساتھ بھیجے گئے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس اقدام کا مقصد متعدد فرقہ پرست اور کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔

فہرست میں شامل بعض نمایاں افراد میں مولوی عبدالعزیزی(لال مسجد)، محسن نجفی، مولوی احمد لدھیانوی(اہل سنت والجماعت)، اورنگزیب فاروقی(اہل سنت والجماعت)، علامہ مقصود ڈومکی(مجلس وحدت المسلمین)، پریال شاہ (اہل سنت والجماعت)، مولوی کبیر(اہل سنت والجماعت)، سبطین شیرازی(غیر فعال تحریک جعفریہ پاکستان)، مرزا علی(ٹی جے پی)، رمضان مینگل(لشکر جھنگوی)، شیخ نیر(ٹی جے پی) اور شاہد بکیک (لیاری امن کمیٹی) شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فہرست میں ان لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

فہرست میں شامل تقریباً نصف 1443 افراد کا تعلق پنجاب، 226 کا سندھ، 193 کا بلوچستان، 106 کا گلگت بلتستان، 27 کا اسلام آباد اور 26 کا آزاد کشمیر سے ہے جبکہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا نام شامل نہیں۔

مزید پڑھیں:ڈاکٹر عاصم کیس: وسیم اختر کے وارنٹ گرفتاری جاری

جو فہرست بینکوں کو بھیجی گئی ہے ان میں وہ تمام نام شامل نہیں جو اے ٹی اے کے چوتھے شیڈول میں جاری کیے گئے تھے جبکہ سینیئر انسداد دہشت گردی حکام کا کہنا ہے کہ مکمل فہرست میں تقریباً ساڑھے چھ ہزار سے 8 ہزار کے قریب نام موجود ہیں۔

یہ بات واضح نہیں کہ بینکوں کو فراہم کی جانے والی فہرست میں لوگوں کے نام کس طریقہ کار کے تحت شامل کیے گئے جبکہ سرکاری دستاویز ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے فورتھ شیڈول کو کبھی بھی مکمل طور پر منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

وفاقی حکومت ایسے کسی بھی شخص کو فوتھ شیڈول میں شامل کردیتی ہے جس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو یا وہ کسی ایسی تنظیم کا کارکن، عہدے دار اور معاون ہو جسے سیکشن 11 ڈی کے تحت زیر نگرانی رکھا گیا ہے یا پھر 11 بی کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے یا پھر کسی ایسی تنظیم کا یا گروپ کا حصہ ہو جس پر دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔

ممکنہ طور پر یہ پہلی بار ہے کہ دہشت گردی سے وابستگی کے شبہے میں اتنے بڑے پیمانے پر بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سینیٹ: دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے بل منظور

اب تک دہشت گردی کے حوالے سے مالی تعاون کے عنصر کو زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی اور یہ اقدام ان تنقیدوں کا ہی نتیجہ ہے جن میں کہا جاتا تھا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔

نیکٹا کے سابق کوآرڈینیٹر طارق پرویز نے اسٹیٹ بینک کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ درست سمت میں اٹھانے جانے والے اس قدم کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے قانون کے مطابق دیگر کارروائیاں بھی ہونی چاہئیں جن میں فہرست میں شامل افراد کے پاسپورٹ کی منسوخی، اسلحہ لائسنس جاری نہ کرنا اور سفری پابندیاں شامل ہیں۔

قومی سلامتی کے تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کو شک ہے کہ آیا یہ اقدام کالعدم تنظیموں کی مالی معاونت کو معقول حد تک نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوسکے گا یا نہیں۔

عامر رانا کو اس بات کا خدشہ ہے کہ جن لوگوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی بات کی گئی ہے ان میں زیادہ تر فرقہ پرست جماعتوں کے رہنماؤں کے نام ہیں جبکہ سخت گیر دہشت گرد اس فہرست میں نظر نہیں آتے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انفرادی طور پر بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی تو بات کی گئی لیکن کالعدم تنظیموں کے بینک اکاؤنٹس کے خلاف کوئی کارروائی نظر نہیں آئی۔

انہوں نے تجویز دی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ محض بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے دہشت گردوں کی روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے مالی معاونت کو روکا جاسکے۔

یہ خبر 25 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں