شام میں 'بربریت' کے الزامات پر روس برہم

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2016
حلب میں شدید بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو امدادی رضاکارطبی امداد کی فراہمی کیلئے لے جا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
حلب میں شدید بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو امدادی رضاکارطبی امداد کی فراہمی کیلئے لے جا رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

امریکا اور برطانیہ نے روس پر شام میں بربریت اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے جس کی روس نے سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات دونوں ملکوں سے تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

حلب میں شام اور روس کی جانب سے مسلسل بمباری پر اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے کہا کہ روس شام میں جو کر رہا ہے وہ دہشت گردی کا انسداد نہیں بلکہ بربریت ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کی صورتحال پر جاری ہنگامی اجلاس میں روس پر شام میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات تواتر سے عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ جنگ بندی کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد سے روس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کے شہر حلب پر مستقل بمباری کر رہا ہے اور پانچ سال سے جاری تنازع میں اسے بدترین بمباری قرار دیا جا رہا ہے جس میں اب تک 124 سے زائد افراد ہلاک اور ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں حلب میں غذا اور طبی امداد کی شدید کمی واقع ہو چکی ہے اور چار ماہ کے محاصرے کے بعد آج ان علاقوں میں انتہائی مشکل سے امداد پہنچی ہے۔

برطانوی سفیر میتھیو رائے کرافٹ نے بھی امریکی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی نفی کرنا بہت مشکل ہے کہ شامی حکومت کے ساتھ مل کر روس جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری بان کی مون نے روس کو خبردار کیا کہ بھاری تعداد میں ہتھیاروں کے استعمال سے جنگی جرائم کا مرتکب ہو سکتا ہے جبکہ فرانسیسی سفیر فرینکوئس سلاترے نے کہا کہ ان مظالم پر سزا ضرور دینی چاہیے۔

بان کی مون نے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں سے شام میں جاری بھیانک قتل عام اور شدت پسندی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی بھی درخواست کی جہاں پانچ سال سے جاری تنازع میں اب تک کم از کم ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حلب میں جاری تشدد اور قتل عام پر امریکی، برطانیہ اور فرانس کے سفیر احتجاجاً سیکیورٹی کونسل چیمبر سے واک آؤٹ کر گئے جس کے بعد شامی سفیر نے کونسل کے اجلاس سے خطاب کیا۔

روس کے سفیر وائٹالی چرکن نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران تشدد میں اضافے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اب امن کا قیام ناممکن ہو چکا ہے تاہم اب بھی روس سیز فائر کے دوبارہ قیام کی جدوجہد میں مصروف ہے اور یہی ہمارا ہدف ہے۔

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے الزامات پر روس نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکا اور برطانیہ کے نمائندوں کا مجموعی طور پر ناقابل قبول لہجہ اور بیان بازی دیکھ رہے ہیں جو ہمارے تعلقات کو خراب سکتے ہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو نے صحافیوں سے گفتگو میں اپنے سفیر کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سیز فائر کے اثرات انتہائی محدود تھے لیکن روس نے ابھی تک اس سلسلے میں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور شام کے مسئلے کے سیاسی حل اپنی بہترین کوششیں کرنے کیلئے پرعزم ہیں لیکن فی الحال ایسا بہت مشکل ہے۔

روس نے ساتھ ساتھ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیز فائر سے دہشت گردوں کو دوبارہ منظم طریقے سے یکاج ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے بھرپور قوت کے ساتھ حکومتی افواج پر حملہ کیا۔

2012 میں حلب دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا جہاں مغربی پر حکومت جبکہ مشرقی حصے پر باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس حصے میں شدید بدترین لڑائی ہوئی ہے جس پر عالمی برداری نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

زیدی Sep 27, 2016 10:50am
یمن کے سلسلے میں خاموشی کیوں ؟