حوا کی ایک بیٹی کا خط بنامِ خدا

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2016
— تصویر وائٹ اسٹار/فائل
— تصویر وائٹ اسٹار/فائل

میرے پیارے خدا،

آپ خالقِ کائنات ہیں، مرد و زن بھی آپ کی ہی تخلیق ہیں۔ کائنات کا کون سا ایسا ذرے سے بھی چھوٹا راز ہوگا جو آپ پر منکشف نہ ہو۔ دلوں کے بھید، خوشی و شادمانی یا پھر سوز و غم کا عالم، آپ سے کچھ چھپا نہیں۔

مگر اس خط میں میں آپ کو اپنی کہانی سنانے جا رہی ہوں جو آپ کے علم میں تو بلاشبہ ہے مگر آپ کی مخلوق، بنی آدم کے بیٹوں کے علم میں شاید نہ ہو۔ اور اگر علم رکھتے بھی ہیں تو بھی ان کے نزدیک یہ کہانی ایک درد بھرے افسانے یا بدقسمت عورت کی رام کتھا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

میں کوئی قصہ خواں نہیں ہوں، سو میرے ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور بے ترتیب جملوں کی کڑیاں بھی آپ جوڑیے گا۔

یہ کہانی ہے ایک عورت کی ۔۔۔ آپ کی بنائی اس دنیا میں پیدا ہونے والی ایک بیٹی، ایک بہن، ایک بیوی اور ایک ماں کی۔

ان حوا کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی تھی۔

وہ ایسے باپ کے گھر پیدا ہوئی جس کے لیے عورت صرف ایک عورت تھی۔ گوشت پوست کا ایک جسم۔ جس سے وہ اپنی ہوس پوری کر سکتا تھا۔ اس کے نزدیک کائنات کی یہ خوبصورت تخلیق، احساس، درد، خوشی، اور محبت سے عاری ایک سانس لیتا مجسمہ تھی۔

سو اس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ اس کے گھر عورت اس بار اس کی بیٹی کے روپ میں آئی ہے۔

وہ خوش تھا کیوں کہ اب اسے باہر محنت نہیں کرنی پڑتی تھی، عورت کو رام کرنے میں، اسے شیشے میں اتارنے میں، کہ وہ اسے استعمال کر سکے۔ اس کی ہوس پوری کرنے کے لیے اس بار اسے گھر بیٹھے یہ دولت ملی۔ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں، آخر وہ اپنی بیٹی کا باپ تھا، بھلا باپ سے بڑھ کر لڑکی پر حق اور کون جتلائے۔

کیوں کہ وہ عورت اس کی دست نگر تھی، اس کے آس پاس کے لوگ اسے ہی اس عورت کی عزت کا محافظ سمجھتے تھے۔

اس بیٹی کی ایک ماں بھی تھی۔ وہی ماں جس کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے، جو اپنی اولاد کی خاطر سب کچھ تیاگ دیتی ہے، اپنی عزت اپنی زندگی تک کو بھی نہیں بخشتی اور اس بار تیاگنے کے لیے اس کا اپنا گھر یا جہنم کدہ تھا جہاں وہ اور اس کی بیٹی اپنے ناکردہ گناہوں کا عذاب سہتی تھیں۔

سو اس نے وہ گھر اپنی بیٹی کی عزت پر قربان کر دیا۔

معاشرتی اصولوں، گواہوں اور رشتے کی ڈوری پر معلق وہ گھر، اس ماں نے خود اس ڈور کو توڑ دیا، وہ گھر جہاں اسے انسان کے روپ میں شیطان کے حوالے کیا گیا تھا۔

مگر وہ بھولی ماں نہیں جانتی تھی کہ گھر سے باہر قدم قدم پر انہی صفتوں سے سرشار شیطان موجود ہیں۔ وہ عورت اپنی بیٹی کو ان سب سے، اور اس کے قتل کے درپے اس کے باپ اور بھائی سے بچاتی رہی۔

پھر وہ بوڑھی ہو گئی۔ اب اس کے آس پاس کے لوگوں کو اس کے بوڑھے اور ڈھلکے بدن اور جھریوں زدہ چہرے سے دلچسپی نہ رہی۔ اب سب کی نظریں اس کی اس بیٹی پر تھیں جس کا خوبصورت مرمریں بدن تھا۔ جس کی آنکھوں میں خوف اور دہشت تھی۔

مگر سینے میں دھڑکتا ایک دل بھی تھا۔ اپنے آس پاس موجود خوف اور دہشت سے بہت دور خوبصورت اور سنہری سپنے تھے۔ وہ ان سارے شیطانوں میں سے اپنے لیے ایک شہزادے کا انتظار کرتی۔ جو باقی سب کی طرح اس کے مرمریں جسم کو دیکھنے کے بجائے اس کے اندر احساس کو جان پاتا۔

جو اس کے نازک سے جسم پر اپنے دانت گاڑنے کے بجائے اس کے سنہرے خوابوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا، جہاں نیلے شفاف پانی پر اس کی خواہشوں کی تتلیاں اڑتی تھیں۔ چاہے جانے کی خواہش، ایک ایسے دیوتا کے مضبوط حصار کی خواہش جو واقعی بعدِ خدا سجدے کے لائق ہو۔

اس شہزادے نے آنے میں کچھ دیر لگا دی۔ اتنی دیر کہ تب تک لوگوں نے اپنے ترازو کے ایک پلڑے میں اس عورت کی بھوک اور چھت رکھ کر اس کی قیمت لگانی شروع کر دی۔ دوسرے پلڑے میں اس کا جسم رکھ دیا۔ اب اس کے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا، سو وہ اپنے بدن سے ایک ایک وقت کی روٹی کی قیمت ادا کرتی رہی۔

اس کے خوبصورت بدن پر نیل پڑتے رہے۔ اس سے پہلے کہ وہ گندے پیلے دانت اس کے بدن سے ہوتے ہوئے اس کی روح تک پہنچتے جہاں اس کے حسین اور سنہرے خوابوں کی دنیا تھی، وہ شہزادہ آ گیا۔ وہ شہزادہ اس کے ماضی کے بارے میں نہیں جانتا تھا، اور اس کے زخمی بدن پر اپنی محبت کے مرہم رکھنے لگا۔

اس دوران وہ عورت اس شہزادے کے شہزادے جیسے بیٹے کی ماں بن گئی۔ جی ہاں وہی ماں جو اپنی اولاد کے لیے سب تیاگ دیتی ہے، جس کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے۔ وہ جنت جس کی خاطر ماں اپنی آنکھوں میں دوزخ کے انگاروں جتنی تکلیف دینے والے آنسو اپنے دل میں اتار لیتی ہے۔

وہ شہزادہ اب اس کا دیوتا بن چکا تھا۔ مگر ایک دن اس کا دیوتا اس عورت کا ماضی جان گیا اور اس عورت کو اپنے ننھے شہزادے کے ساتھ تنہا چھوڑ گیا۔

اس عورت کا خوبصورت دل ٹوٹ گیا اس کے سارے سنہرے خواب ٹوٹ گئے، اس کی خواہشوں کی تتلیوں نے اپنے پر نوچ لیے۔ اس عورت کی آنکھوں سے بہنے والے لہو نے اس نیلے شفاف پانی کو گدلا کر دیا جس پر وہ تتلیاں اڑا کرتی تھیں۔

مگر وہ عورت جو اپنے دیوتا کے شہزادے جیسے بیٹے کی ماں بھی تھی، اس کی خاطر جیتی رہی۔ وہ ننھا شہزادہ جو اس کے عشق کی نشانی تھا۔ اس دیوتا کی دَین، جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔

کہانی پھر سے دہرائی جانے لگی۔ اس عورت نے اپنی ماں کی طرح قربانی دینی شروع کر دی۔ وہی لوگ، وہی بھوک، وہی ترازو اور وہی اس کا جسم۔

فرق یہ تھا کہ اب ترازو میں اس کی بھوک کے بجائے اس کے بیٹے کی بھوک تھی، جس کی قیمت وہ عورت ادا کرتی رہی۔

اچانک اس ننھے شہزادے نے اپنے باپ کی محبت پانے کی ضد شروع کر دی، ایسے ہی جیسے ننھے بچے چاند کو پانے کی ضد کرتے ہیں۔

اس ماں نے اپنے شہزادے کو بہت سمجھایا مگر وہ نا مانا۔ ایسی ضد پکڑی کہ کھانا پینا چھوڑ دیا، بیمار پڑ گیا اور بستر سے لگ گیا۔

کہنے لگا: "میرے جیسے سب بچے اپنے ابو کی انگلی پکڑ کر اسکول آتے ہیں۔ سب کے ابو ہوتے ہیں جو ان سے پیار کرتے ہیں، بس میرے ابو نہیں ہیں۔ مجھے بھی میرے ابو چاہیئں۔ مجھے ان کا پیار چاہیے۔"

مجبور ہو کر وہ عورت اپنے ننھے شہزادے کی انگلی پکڑ کر اپنے دیوتا کے پاس گئی اور اپنے ننھے شہزادے کے لیے محبت کی بھیک مانگی۔

مگر وہ دیوتا ایسا سخت دل ہوگیا کہ اس عورت اور اس ننھے شہزادے کو دھتکار دیا۔ ادھر ننھے شہزادے نے بھی دھتکارے جانے کے باوجود اپنی ضد نہ چھوڑی۔ وہ عورت شہر کے قاضی کے پاس گئی تو اسے پتہ چلا کہ قاضی کے پاس ایسا کوئی قانون ہی نہیں جو اس ننھے کو اس کے باپ کا پیار دلا سکے۔

مگر قاضی نے اس ننھے کی ضرورتوں کے لیے اس باپ کو خرچہ دینے کو کہا۔ مگر وہ ظالم دیوتا نہ مانا۔ اس عورت نے اپنے اندر کی اس عورت کو جو دن رات اس ظالم دیوتا کے عشق کی مالا جپتی تھی، اسے ایک اندھیری کوٹھڑی میں بند کر کے باہر بڑا سا تالا لگا دیا اور صرف ایک ماں بن گئی۔

اسی کشمکش میں کئی سال گزر گئے۔ اس ظالم باپ نے اس ننھے شہزادے کو جو اس کا اپنا ہی بیٹا تھا، اتنی بار دھتکارا کہ اس ننھے شہزادے نے اپنی ضد چھوڑ دی اور اپنی آنکھوں کے حسین خواب توڑ دیے۔

وہ دنیا، جہاں اس کی معصوم خوشیوں کی تتلیاں شفاف پانی پر اڑا کرتی تھیں، برباد ہوگئی۔ ایک بار پھر ان تتلیوں نے اپنے پر نوچ لیے۔

وہ شفاف پانی ننھے شہزادے کی آنکھوں سے بہنے والے لہو سے گدلا ہوگیا۔ اس عورت کا دل ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔ دل کے ساتھ ساتھ اس لہو رنگ پانی پر جلنے والا ایک امید کا آخری دیا جو جانے کب سے جل رہا تھا، ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔

وہ دیوتا قاضی کے پاس گیا اور اس ننھے شہزادے اور اس کی ماں کے لیے اپنی نفرت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ وہ عورت اپنے ننھے شہزادے کا ہاتھ پکڑے اس حکم نامے کے ساتھ اس ظالم دیوتا کی دنیا سے دور چلی گئی۔

ابھی بھی جب کوئی باپ اپنے بیٹے کو پیار کرتا ہے، جب کوئی مرد کسی عورت کی روح کے اندر جھانک کر اس کی محبت کو دیکھ لیتا ہے، تو وہ تینوں مسافر اپنا راستہ بھول جاتے ہیں: ایک ماں، اس کا ننھا شہزادہ اور اس ظالم دیوتا کے عشق کی مالا جپتی عورت جو اب تک زندہ ہے۔

فقط،

حوا کی ایک بیٹی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Naveed Chaudhry Oct 25, 2016 11:23pm
Assalam O Alaikum, I wish this is just a fiction not true story. If this is true than let me remind our society in genral and governments particularly that it is our resposibility to suport needy. We will be asked on the day of judjment why we did not fullfil our resposibilities.