ترقی پسندی کے خلاف فتووں کا لازوال فیشن

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2016
— خاکہ خدا بخش ابڑو۔
— خاکہ خدا بخش ابڑو۔

آج سے 67 سال قبل اسی ماہ نومبر میں پنجاب کے دل لاہور کے مشہور لارنس باغ (بعد ازاں جناح باغ) میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔

اس کانفرنس کی مخالفت میں سرکاری، درباری و بنیاد پرست لکھاریوں نے بھرپور مہم چلائی، مذہب دشمنی کے فتوے دیے، اور الزام لگایا کہ بظاہر نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے ہونے والی اس کانفرنس کو امریکی و برطانوی حمایت حاصل ہے۔

یوں ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی نو آبادیاتی تربیت کام آئی اور ایک طرف کمیونزم مخالف امریکی کیمپ میں حاضریاں لگ گئیں اور دوسری طرف اندرون ملک ترقی پسند عناصر کو نکرے لگا دیا گیا جو اشرافیہ کے مفادات کے ناقد تھے۔

حیران نہ ہوں، غداری کے فتوے دینے والوں میں وہ بھی پیش پیش تھے جو 14 اگست 1947 تک خود قیام پاکستان کے سخت مخالف رہے تھے۔ اس ترقی پسند مخالف مہم پر چند ماہ قبل منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد کا گہرا بھی سایہ تھا جس کے حق میں تقاریر کرنے والوں میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے علاوہ سر ظفر اللہ خان، مولانا شبیر احمد عثمانی، سردار عبدالرب نشتر سمیت بہت سے لوگ شامل تھے۔ بھلا ہو چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا کہ ان کی محنت سے اب یہ تمام تقاریر قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر آن لائن دستیاب ہیں۔

میں آج کل مشہور ترقی پسند اور پیپلز پبلشنگ ہاؤس کے مالک عبدالرؤف ملک کی سوانح پر کام کر رہا ہوں۔ میں نے نہ صرف یہ داستانِ الم تحریر کر دی ہے بلکہ اس کانفرنس کی روداد بھی شائع کر دی ہے جو ان کے بھائی اور مشہور ترقی پسند صحافی و مصنف عبداللہ ملک نے ’’مستقبل ہمارا ہے‘‘ کے عنوان کے تحت 1950 میں شائع کی تھی۔

غداری اور وطن دشمنی کے ان فتووں کو پڑھ کر ہمیں اس پرانے بیانیے کی جڑوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے جس کے خلاف آج ہمیں ضرب غضب جیسی مہمیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ اگر ہم غداری و مذہب دشمنی کے فتوے دینے کی روایات بھی تج سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے معاشرے کو دہشت گردی و انتہا پسندی جیسی عفریتوں سے بچا پائیں گے۔

آٹھ اکتوبر 1949 کے روزنامہ 'احسان' نے مولانا محمد علی، خطیبِ سنہری مسجد لاہور کا فتویٰ چھاپا جس میں لکھا تھا "موجودہ دور میں جو ملاحدہ اپنے عقائد باطلہ کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف رنگوں میں تبلیغ کرتے ہیں، مثلاً کمیونسٹوں کا فرقہ یا ترقی پسند مصنفین، ان کے لیے شرعی حکم کی رو سے حکومتِ وقت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کو پوری طرح سے کیفرکردار تک پہنچائے۔ ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں یہ سزا ہے کہ ان کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے۔‘‘

ایک اور فتویٰ مولانا عبداللہ شاہ، نائب صدر جمیعت علماءِ جموں و کشمیر پونچھ کا بھی اسی اخبار کی 20 اکتوبر کی اشاعت میں چھپا ہے جس کے بقول "انجمن ترقی پسند مصنفین، جس کے بنیادی منشور میں احیاء کی مخالفت مراحثہ مذکور ہے، وہ نہ صرف اسلام کے خلاف بلکہ پورے پاکستان کے خلاف ایک خفیہ سازش اور خطرناک بغاوت ہے۔"

اس ترقی پسند مخالف مہم میں مشہور صحافی شورش کاشمیری کا رسالہ چٹان بھی پیش پیش رہا۔ 14 نومبر 1949 کی اشاعت میں اس ہفتہ وار رسالے نے لکھا، "اس ہفتے لاہور میں ترقی پسند مصنفین ایک کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔ یہ لوگ روس کے محکمہ خارجہ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا ادبی ذہن مخصوص کمیونسٹ سانچوں میں ڈھلا ہوا ہے۔"

حمایت کرنے والوں کو دھمکاتے ہوئے اسی مضمون میں لکھا گیا کہ، "ہماری مصدقہ معلومات یہ ہیں کہ انجمن کو ان لوگوں نے بھی چندہ دیا ہے جنہیں آج تک قائد فنڈ یا کشمیر فنڈ میں کوئی رقم دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ان میں مسلم لیگ کے جلیل المرتبت اور پاکستان گورنمنٹ کے بعض اعلیٰ حکام بھی ہیں۔"

اس اشاعت میں شورش کاشمیری نے ایک اشتہار بھی شایع کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ وہ چند ہفتوں میں نام نہاد ترقی پسندوں کے خلاف چٹان کا خصوصی نمبر بھی شایع کریں گے۔

احسان اخبار ہی نے 13 اکتوبر کو ایک مضمون شایع کیا جس کا عنوان "نیا فتنہ، جس سے آپ غافل ہیں" تھا اور اس میں اسلامی جماعتوں و علماء کو ترقی پسندوں کے خلاف وسیع اتحاد بنانے پر اکسایا گیا۔

مولانا محمد اسمٰعیل خطیب جامع مسجد شادی وال کے فتوے میں تو ترقی پسندوں کو مرتد قرار دیا گیا ہے۔ راولپنڈی کے روزنامہ تعمیر میں سرکار سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اور اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کے لیے قانون سازی کریں۔

احسان کے 10 ستمبر کو شایع ہونے والے اداریے میں تو ترقی پسندوں کو پہلے تو مزدوروں کے عالمی دن پر مال روڈ پر واقع وائی ایم سی اے ہال میں یوم مئی کا جلسہ کرنے پر معتوب قرار دیا گیا اور پھر انہیں ہندوستانی ایجنٹ و اسلام دشمن کہا گیا۔

ایک اخباری خبر کے مطابق 15 اکتوبر 1949 کو ٹیکسالی دروازہ کے اندر ایک جلسہءِ عام جمعیت علماءِ پاکستان نے منعقد کیا جس میں حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا، "ترقی پسند جو اجلاس کرنا چاہتے ہیں، اس کا اثر اسلامیانِ پاکستان کو گمراہ کرنے والا ہے اور قرارداد مقاصد کے لیے مضر ثابت ہوگا۔ اس لیے اس اجلاس کا انعقاد ممنوع قرار دیا جائے۔" ایسی آوازیں یکدم کراچی سے پشاور تک بلند ہونے لگیں۔

یہ واقعہ کئی ایک حوالوں سے اہم ہے۔ ابھی ہم امریکی اتحاد میں باقاعدہ شامل بھی نہیں ہوئے تھے اور آئین سازی کا عمل جاری تھا، البتہ ہر جگہ نوآبادیاتی تربیت یافتہ آئی سی ایس افسران کی حکومت تھی۔

ترقی پسندوں کو غدار قرار دینے والے اس حقیقت سے نظریں چرائے بیٹھے تھے کہ 1943 سے 1947 کے فیصلہ کن معرکے میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا نے تحریکِ پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ مگر پاکستان کے قیام کے بعد اشرافیہ نے ترقی پسندوں کو داخلِ دفتر کرنا اس لیے ضروری نہ سمجھا کہ کہیں عوامی حقوق کے تحفظ پر مبنی پالیسیاں نہ بن جائیں، اور اشرافیہ کی حکمرانی کا خواب ادھورا رہ جائے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پہلے تین سالوں میں پاکستان اور ہندوستان دونوں کی اشرافیہ امریکی اتحاد میں شامل ہونے کی متمنی تھی۔ 1948 میں دونوں ممالک نے ترقی پسندوں کی مخالفت کو بطور عمل انگیز استعمال کرنے کی پالیسیاں بنائیں۔

پاکستان میں ترقی پسندوں کی مخالفت کو مذہب کے تڑکے سے خوب ہوا دی کہ یہ نسخہءِ کیمیا نوآبادیاتی دور سے آزمایا ہوا تھا۔ حیران نہ ہوں، اس پالیسی کو بنانے والوں میں کئی ایک معتبر سول فوجی بیوروکریٹس، صحافی، سیاستدان اور علماء بلا امتیاز فرقہ و زبان شامل رہے۔ ضیاء الحق کا دور اس پالیسی کا عروج تھا تو طالبان اس کا منطقی نتیجہ، جبکہ مرکزیت پسندی، جنگی جنون، اسلام اور اردو زبان اس کے اہم ستون۔

اس پرانے بیانیے کو بدلنے کا وقت آگیا ہے مگر ہم میں سے بہت سے آج بھی "غدار" اور "مذہب دشمنی" کی آڑ لے کر پرانے بیانیے کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

Naveed Ahmed Nov 13, 2016 04:54pm
Amir well written article!
Waseem Baksh Nov 14, 2016 04:09am
Aamir, kia CPI ka partition Kay faislay ko tasleem karna, Stalinist policy ka hisa nahi tha???
مجاہد حسین Nov 14, 2016 02:06pm
نہایت عمدہ اور تحقیقی مضمون ہے
Emran Nov 14, 2016 04:07pm
First, I want to appreciate you to write this article bravely. Secondly I want to say you look great.
یمین الاسلام زبیری Nov 15, 2016 06:25pm
ترقی پسند تحریک مذہبی ٹھیکیداروں کو آئینہ دیکھاتی ہے۔ تو بس: آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔