اسلام آباد: زبوں حالی کے شکار پاکستان اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

کابینہ کی نجکاری کمیٹی سے اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کی منظوری کے لیے 18 جنوری کو سفارشات پیش کی جائیں گی۔

اسد عمر کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی اسد عمر اور چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر میں تلخ کلامی دیکھنے میں آئی۔

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر کے بھائی ہیں۔

اسٹیل ملز کے معاملے پر اسد عمر اپنے بھائی محمد زبیر پر ہی برس پڑے، نجکاری کمیشن کے سربراہ کو کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اگر آپ بات نہیں سن سکتے تو اجلاس چھوڑ کر چلے جائیں۔

اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو کمیٹی کی بات سننا پڑے گی، بریفنگ میں جھوٹ بولا گیا ہے اور جھوٹ بولنے پر تحریک استحقاق بھی لائی جاسکتی ہے۔

اسد عمر کا اجلاس میں کہنا تھا کہ اسٹیل ملز 2008 تک منافع میں جارہی تھی جبکہ اس کا منافع 19 ارب 40 کروڑ روپے تک پہنچ گیا تھا۔

اسٹیل ملز کو خسارے سے نکالنے کے لیے اسد عمر نے تجویز دی کہ حسین نواز کو اسٹیل ملز کا چیئرمین لگایا جائے کیونکہ وہ اسٹیل ملز کا کاروبار بہتر جانتے ہیں۔

جس پر محمد زبیر کا کہنا تھا کہ آپ سیاسی بات کررہے ہیں۔

اسد عمر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ حسین نواز کی تعیناتی کی تجویز ان کے تجربے کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کا تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج

چیئرمین نجکاری کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) نے پاکستان اسٹیل ملز کی گیس بند کی، ایس ایس جی سی کے بورڈ نے گیس بندش کی قرار داد بھی منظور کی، اس پر میرا کوئی اختیار نہیں تھا۔

محمد زبیر نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت نے اسٹیل ملز کی خریداری سے تحریری انکار نہیں کیا، اور جولائی 2016 میں اسٹیل ملز کی نجکاری دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

چیئرمین نجکاری کمیشن کے مطابق چینی کمپنیاں اسٹیل ملز کی خریداری میں دلچسپی نہیں رکھتیں، دو کمپنیاں اسٹیل مل کو لیز پر لینے کے لیے تیار ہیں، جن میں سے ایک ایرانی جبکہ دوسری پاکستانی کمپنی ہے، جو چینی کمپنی کے ساتھ مل کر پاکستان اسٹیل ملز کو لیز پر لینے کے لیے تیار ہے۔

قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی کے رکن قیصر شیخ کا کہنا تھا کہ تین سال پہلے آگاہ کیا گیا تھا کہ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کو نہیں چلا سکتی۔

قیصر شیخ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے تین سال کا وقت ضائع کیا اور سندھ حکومت کی جانب سے اسٹیل ملز کی آفر پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

واضح رہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کی جانب سے 39 ارب روپے کے بقایہ جات کی عدم ادائیگی پر پاکستان اسٹیل ملز کو گیس کی سپلائی معطل کیے جانے کے بعد پیداوار کا عمل رکا ہوا ہے، مالی مشکلات سے دوچار پاکستان اسٹیل ملز پر واجبات 178 ارب روپے کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے ہیں جبکہ اسٹیل ملز نیشنل بینک کی 50ارب اور وفاقی حکومت کی 40 ارب روپے کی مقروض ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیل ملز سندھ کو دینے کی پیش کش

وفاقی حکومت کو ادا کیے جانے والے واجبات 39 ارب 47 کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں، جبکہ ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں واجبات 50 ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز نے گیس بلوں کی مد میں 19 ارب 52کروڑ ،واٹر چارجز90 کروڑ،کے الیکٹرک کے 42کروڑ اور میڈیکل اخراجات کی مد میں 41 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں۔

دوسری جانب درآمدگی سے جڑے واجبات تقریباً 5ارب 52کروڑ کے برابر ہیں۔

رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی جولائی تا ستمبر کے دوران پاکستان اسٹیل ملز کے نقصانات 4ارب روپے سے زائد رہے۔


تبصرے (0) بند ہیں