اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے پانی اور بجلی خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت ملک کی پہلی قومی پانی کی پالیسی یا نیشنل واٹر پالیسی پر متفق ہوگئی ہیں جسے منظوری کیلئے مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کو بھیج دیا گیا ہے۔

انھوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان اور چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت 1.8 ارب روپے کی لاگت کے پہلے ہائیڈرو پاور منصوبے (870 میگا واٹ کے سوکی کناری) کا اعلان کرنے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے حکومت کے 2018 میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے عزم کو دہراتے ہوئے بتایا کہ چشمہ تھری جوہری توانائی کے منصوبے نے کام کا آغاز کردیا ہے اور چشمہ فور اپریل تک کام کا آغاز کردے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ متعدد تھرمل پاور منصوبے، جو آر ایل این جی سے چلیں گے، جانچ کے مرحلے میں ہیں۔

انھوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ آئندہ کے مون سون سیزن سے قبل 969 میگا واٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کا منصوبہ بجلی کی پیداوار کا اغاز کردے گا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت اقدامات کررہی ہے کہ اپریل تک ندی پور توانائی کا منصوبہ قدرتی گیس پر منتقل کرنے کا عمل مکمل کرلیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریگولیٹرز کی جانب سے اب تک گیس کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی کے ٹیرف مقرر نہیں کیے گئے ہیں، اگر ٹیرف، خرچ رقم سے متوازی نہ ہوئے تو اسے غور کے لیے وفاقی کابینہ کو بھیج دیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر پانی اور بجلی کا کہنا تھا کہ انھیں اب بھی ریگولیٹرز کے موقف میں تبدیلی کا انتظار ہے اس کے باوجود کہ ریگولیڑز کو گذشتہ ماہ ان کی متعلقہ وزارت کے ماتحت کردیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو ہائیڈرو پاور منصوبوں کی متنازع تعمیر پر کسی قسم کا موقف دینے سے انکار کیا۔

دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے فنڈز حاصل کرنے کیلئے حکومت کو درپیش مسائل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان ڈیم کے علاقے کو متنازع تصور نہیں کرتا اور اس کی تعمیر کا کام رواں سال میں شروع ہوجائے گا۔

انھوں نے کہا کہ وہ جو مذکورہ علاقے کو متنازع سمجھتے ہیں اس بات کیلئے آزاد ہیں کہ وہ منصوبے کیلئے فنڈز فراہم نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیامیر بھاشا کے منصوبے میں سرمایہ کاری کیلئے متعدد ممالک نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے کہ منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ایک پانی کو محفوظ کرنے اور دوسرا بجلی گھر کی تعمیر کا ہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ملک کے سرمائے کا استعمال کیا جائے گا جبکہ پاور ہاؤس کی تعمیر کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری کا استعمال کیا جائے گا۔

اس سے قبل وفاقی وزیر نے ایک تقریب کی صدارت کی جو 870 میگا واٹ کے سوکی کناری ہائیڈرو منصوبے کے حوالے سے تھی۔

اس حوالے سے متعلقہ دستاویزات پر پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ کے میجنگ ڈائریکٹر شاہ جہان مرزا اور سوکی کناری ہائیڈرو پاور منصوبے کے چیف ایگزیکٹو آفسر نے دستخط کیے۔

خیال رہے کہ یہ خیبرپختونخوا کا پہلا منصوبہ ہوگا جو نجی شعبے کی جانب سے تعمیر کیا جائے گا اور یہ ملک کا اب تک کا سب سے بڑا خود مختار ہائیڈرو پاور منصوبہ بھی ہے۔

واضح رہے کہ منصوبے کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوگیا ہے اور یہ 2022 سے کام شروع کردے گا جس سے ہر سال قومی گرڈ میں 3081 گیگا واٹ بجلی شامل ہوسکے گی۔

یاد رہے کہ اس منصوبے کیلئے پانی کے استعمال پر آئندہ 30 سال کیلئے صوبائی حکومت کو سالانہ 1.3 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

یہ منصوبہ پاور پالیسی 2002 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے جو 30 سال کے بعد صوبے کو منتقل کردیا جائے گا۔

منصوبہ خیبرپختونخوا کے مشرقی حصے میں ناران اور پارس ٹاؤن کے درمیان ضلع مانسہرہ میں دریائے جہلم سے منسلک دریائے کنہار پر بنایا جارہا ہے۔

اس منصوبے کیلئے سرمایہ کاری الجومایہ ہولڈنگ کمپنی (سعودی عرب)، چائینہ گیزہوبا گروپ کمپنی (چین) اور حسیب خان پرائیویٹ لمیٹڈ (پاکستان) کی جانب سے کی جارہی ہے۔

اس منصوبے پر 1.8 ارب روپے لاگت متوقع ہے۔

اس کے علاوہ منصوبے کیلئے قرض فراہم کرنے والوں میں ایکسپورٹ-امپورٹ بینک آف چائینہ اور انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائینہ بھی شامل ہے۔

یہ رپورٹ 10 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں