جدید دور کے سرفہرست بلے بازوں کے نام بتائیے؟

میں میلبرن کے ایک ہپی کیفے میں بیٹھا ہوا تھا کہ یہ سوال مجھ سے پوچھا گیا۔

ممکنہ طور پر ہیڈن، سہواگ، لارا، سچن، اسٹیو وا اور یہاں تک کہ چھٹے نمبر پر کیلس۔


کیا پاکستانی لیجنڈ یونس خان کا شمار سرفہرست چھ بلے بازوں میں ہوتا ہے؟


کیا کیلس کو میں چھٹے نمبر پر رکھ سکتا ہوں؟ نہیں وہ چوتھے نمبر کے زیادہ مستحق ہیں۔

اوہ! میں پونٹنگ اور ڈریوڈ کو بھول گیا تھا۔

پھر سنگاکارا ہیں، ان کا خاص نمبر ہوگا لیکن انھیں کہاں منتخب کیا جائے؟

میرا خیال ہے کہ وارنر بھی مستحق ہیں، کیا مائیک ہسی بھی اہل ہیں؟ اے بی ڈی ولیئرز یا ہاشم؟

تین سال بعد مجھ سے یہی سوال پوچھیے، اور ہمیں ویرات، اسٹیو اسمتھ، ولیمسن اور ہوسکتا ہے روٹ کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

میں نہیں سمجھتا کہ چھے بہترین کھلاڑیوں کو منتخب کرنا ممکن ہے"۔

ایک مرتبہ بھی یونس خان کا نام نہیں لیا گیا۔


دسمبر 2004

پاکستان کا دورہ آسٹریلیا

28 سالہ یونس خان واکا پہنچے تو ان کی اوسط عام سی 38.30 تھی۔

یہ ان کے کیریئر کا 30 واں میچ ہوگا، اکثر سرفہرست بلے باز ایسے عام سے ریکارڈ کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں کھیلنے کے مزے نہیں لوٹ پاتے۔

ان کی ٹیم میں پاکستانی بیٹنگ کے بادشاہ موجود ہیں، انضمام، اور یوسف یوحنا۔

یونس نے پہلے موقع میں بیٹنگ کی۔ اسکور ایک وکٹ پر 32 تھا۔ جب یونس آؤٹ ہوئے تو 5 وکٹوں پر 108 تھا۔ پاکستان کی پوری ٹیم 179 پر آؤٹ ہوئی۔

دوسری اننگز میں انھوں نے دوبارہ کوشش کی لیکن 17 پر آؤٹ ہوئے، پاکستان 72 تک پہنچا۔ کھیل ختم۔

مک گرا، گلیسپی اور وارن نے کہا، "دوستو، آسٹریلیا میں خوش آمدید"۔

جب سیریز کا تیسرا ٹیسٹ مکمل ہوا، تب تک یونس کی اوسط بڑھ کر 39.18 ہوچکی تھی۔

آسٹریلیا نے انھیں اگلے 11 برس تک اپنی سرزمین پر نہیں دیکھا۔ انھیں توقع بھی نہیں تھی کہ وہ واپس لوٹ کر آئے گا۔

11 سال بعد

یونس خان اسکور بک میں ناقابل شکست 175 سجا کر آسٹریلیا سے روانہ ہوئے۔


جب آپ کا تعلق پاکستان سے ہو اور انڈیا کے خلاف کھیل رہے ہوں تو کچھ معنی رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر تمام ٹیسٹ سیریز بے معنی محسوس ہوتی ہیں۔

مارچ 2005 میں انڈیا میں ان کی پہلی ٹیسٹ سیریز ہے، آسٹریلیا میں ہونے والی سیریز دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یونس 147، 267 اور 84٭ کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ 9، 1 اور ایک مرتبہ صفر پر بھی آؤٹ ہوئے۔

کچھ بڑا کرو یا گھر چلے جاؤ۔

یونس دونوں چیزیں کر سکتا ہے۔


لاہور کا قذافی اسٹیڈیم ایک گرم، خشک اور خوفناک جگہ ہے۔ اور جب یہ انڈیا کا خون چاہنے والے مقامی جوشیلوں سے بھرا ہوا ہو،، تو ایسے میں یہ بے رحم بن جاتا ہے، لیبیا کے اس آمر کی طرح جس سے یہ منسوب ہے۔

یونس خان جب میدان میں اترے تو اس وقت تک صرف 13 گیندیں کروائی گئی تھیں۔

اور جب وہ میدان سے گئے تو اسکور 477 تھا۔

'آ جائیں آ جائیں آ جائیں، نہیں نہیں، رکیں رکیں ۔۔۔۔ سوری بھائی'

شاہد آفریدی کا انہیں 199 پر رن آؤٹ کروا دینا بوم بوم، یونس، اور پاکستان تینوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔

دوسرے ٹیسٹ میں 83 اور 194 بنائے، تیسرے ٹیسٹ میں صفر اور 77 کیے۔

جس شخص کو ایک دن پاکستان کے عظیم ترین بلے باز کا تاج پہنایا جانا تھا، اس نے اپنی قدر و قیمت ثابت کر دی تھی۔


مردان

یہ کراچی یا لاہور نہیں۔

یہاں صرف ڈھائی لاکھ افراد رہتے ہیں اور یہ افغان سرحد سے بمشکل ڈھائی گھنٹے کا سفر ہے۔

یہاں کوئی بین الاقوامی معیار کا کرکٹ اسٹیڈیم نہیں ہے۔

مردان کا پاکستانی کرکٹ کے بہترین لوگوں سے بہت کم تعلق ہے۔

پی سی بی کے سابق چیئرمین نسیم اشرف کی بیگم کا تعلق مردان سے ہے۔ کیا یہ اہمیت رکھتا ہے؟

پاکستان میں مردان سے بڑے 18 شہر ہیں۔

مگر مردان کے پاس یونس خان جیسے 18 بڑے بیٹے نہیں ہیں۔


تمام جانداروں کی ساخت و جسامت وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے، اسی طرح جس طرح سنڈی تتلی میں بدل جاتی ہے۔

جب یونس ٹیم میں ہوں، تو جارحانہ بیٹنگ دفاعی انداز میں بدل جاتی ہے، جیسے حملے کے لیے تیار چیتا جست لگانے سے پہلے بیٹھتا ہے۔

2016 میں یہ جارحانہ اور دفاعی انداز کا عجیب ملغوبہ بن رہا تھا، جیسے اچھل کود ہو رہی ہو۔

چوتھے ٹیسٹ تک پاکستان سیریز میں 1-2 سے پیچھے تھا۔

یونس خان نے اب تک اس سیریز میں اچھل کود کی ہے، دیوانوں کی طرح بلے بازی کی ہے، حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اپنے چیتے جیسے پنجے کھولنے کا دکھاوا بھی کیا ہے، مگر انہوں نے اب تک شکار نہیں کیا ہے۔

یونس نے اب فیصلہ کیا کہ سیریز کو برابر کرنے کے لیے اور ٹیسٹ کی عالمی نمبرایک ٹیم بنانے کے لیے جیت ضروری ہے، اور حملہ کرنے کا یہی وقت ہے۔

جب راستے خراب ترین ہوں، تو یونس کی کارکردگی بہترین ہوتی ہے۔

یہ یونس خان کے 218 شاندار رنز ہیں۔

اب ان کی بیٹنگ اوسط 38 نہیں رہی۔ بلکہ ان کی عمر 38 ہوگئی ہے۔

جب اظہرعلی نے فاتحانہ چھکا مارا تو دوسری جانب سمیع اسلم کھڑے تھے۔ جب یونس خان نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنی شروع کی تھی، تو اس وقت سمیع اسلم پانچ سال کے تھے۔

پش اپس اب کبھی بھی اتنے پیارے نہیں لگیں گے، یا ان کی اتنی پذیرائی نہیں ہوگی۔

یونس اب کبھی بھی انگلینڈ کے کرکٹ گراؤنڈ میں کھڑے نہیں ہوں گے اور فوجی سلیوٹ ک لیے ٹیم کی رہنمائی نہیں کریں گے۔


یہ ان کے کریئر کا 59 واں ٹیسٹ ہے۔ سری لنکن ٹیم کراچی میں موجود ہے۔

صرف چند دن بعد کچھ دہشتگرد سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ کریں گے۔ یہ حملہ پاکستان کو توڑ دے گا۔ یہ کرکٹ کو توڑ دے گا۔

ان کے 59 ویں ٹیسٹ کے واقعات کو آسانی سے بھلا دیا جاتا ہے، کیوں کہ تاریخ میں یہ سیریز اب کسی اور وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے۔

سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کی۔

جے وردھنے نے 240 بنائے۔

سماراویرا نے 241 رنز بنائے۔

سات وکٹوں پر سری لنکا نے 644 رنز بنائے۔

یونس کے ہاتھ میں گیند تھما دی گئی۔

ایک۔ صفر۔ چھے۔ صفر۔

یونس خان کے ہاتھ میں بلا تھمایا گیا۔

یونس نے 313 رنز بنا ڈالے۔

سچن نے کبھی ٹرپل سنچری نہیں بنائی اور نہ ہی پونٹنگ نے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی اوسط پہلی مرتبہ 50 سے اوپر آئی۔ اس کے بعد یہ کبھی بھی 50 سے نیچے نہیں گئی۔


یونس کے کھاتے میں ٹیسٹ کرکٹ میں 9 وکٹیں بھی ہیں۔

ان کا اسٹرائیک ریٹ پیٹ سیمکوکس سے بہتر ہے۔

انھوں نے ایک بار سہواگ کو ٹیسٹ میچ کی آخری گیند پر اسٹمپ بھی کیا۔

ایک مرتبہ ہاشم آملا کا بھی شکار کیا۔


یونس خان نے اپنے 115 ٹیسٹ میچوں میں سے صرف 19 پاکستان میں کھیلے ہیں۔

اعداد و شمار کے ماہرین بعض اوقات دعویٰ کرتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات غیر جانبدار مقام ہے اور اسی لیے اس کو غیر ملک تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ اعداد و شمار اس سے زیادہ غلط کبھی نہیں ہوئے ہوں گے۔

انھوں نے 96 ٹیسٹ میچ پاکستان سے باہر کھیلے۔ وہ اب کبھی بھی پاکستان میں نہیں کھیلیں گے۔ اپنے لوگوں کے سامنے کبھی بھی نہیں۔

جب انھوں نے پاکستان میں کھیلا تو ان کی اوسط 59.31 تھی۔

مگر انڈیا میں صرف لیجنڈز کی اوسط 76.80 ہوتی ہے۔

یونس خان لیجنڈ ہیں۔

انھوں نے 11 مختلف ممالک میں سنچریاں بنائیں۔

90 سے سنچری کے درمیان وہ صرف ایک مرتبہ آؤٹ ہوئے۔

انھوں نے 34 ٹیسٹ سنچریاں بنائیں لیکن صرف 32 نصف سنچریاں بنائیں۔ اسی لیے یونس خان صرف شروع نہیں کرتے، بلکہ اختتام تک پہنچاتے ہیں۔

ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں صرف 5 کھلاڑی ایسے ہیں جن کی سنچریاں زیادہ ہیں۔ ان تمام نے اپنے نصف سے زیادہ میچز کو اپنے ہوم گراؤنڈ میں کھیلا ہے، مگر یہ روایت یونس خان کے معاملے میں نہیں ہے۔

یونس خان 10 ہزار ٹیسٹ رنز کے سنگ میل کو چھونے والے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔

یونس خان کرکٹ کے چک نورس ہیں۔


"جدید دور کے سرفہرست چھے بلے باز بتائیے۔"

"اچھا، کیا آپ نے یونس خان کا ریکارڈ دیکھا ہے؟


یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 15 جنوری 2017 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr MuhammadkhanYousafzai Jan 21, 2017 01:05am
یونس کا تعلق مردان ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں طورو سے ھے زمیندار ھیں یونس حان کی اپنی جائیداد چند کنال ھے ھم چاہتے ھیں کہ یونس دس ہزار رنز مکمل کریں اور شان سے ریٹائرڈ ھوجائیں باعزت باوقار