اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے اسٹیل مل کو لیز پر دینے کے حکومتی منصوبے کی چپ چاپ حمایت سے انکار کر دیا۔

خط کا عکس—۔فوٹو/ فہد چوہدری
خط کا عکس—۔فوٹو/ فہد چوہدری

قائمہ کمیٹی کے سربراہ اسد عمر نے چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر کو اس حوالے سے باضابطہ خط بھیج دیا، جس میں لیز منصوبے کی تمام تر تفصیلات کمیٹی کے سامنے رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اسد عمر کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن کے مطابق نجکاری کمیشن نے اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کے بارے میں کمیٹی کی رائے طلب کی تھی لیکن حکومتی منصوبے کی تفصیلات سے آگاہی کے بعد ہی کمیٹی کے لیے کسی قسم کی رائے کا اظہار ممکن ہے۔

خط میں کہا گیا کہ کمیٹی نے مسلسل آٹھ اجلاسوں میں اسٹیل ملز ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز کی عدم ادائیگی کا معاملہ اٹھایا، لیکن حکومتی بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ اس ضمن میں اس نے ٹس سے مس ہونا گوارا نہیں کیا۔

مزید پڑھیں:'پاکستان اسٹیل ملز کو 30 سالہ لیز پر دینے کی منظوری'

خط کے مطابق کمیٹی نے 17 اگست 2015 کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل مل کے بورڈ آف ڈائریکڑز میں قابل اور متعلقہ افراد کی شمولیت کی سفارش کی تھی، اسی اجلاس میں کمیٹی کی جانب سے اسٹیل ملز کے اثاثہ جات خصوصاً گیارہ ہزار ایکڑ اراضی کی فروخت پر سختی سے پابندی کی بھی سفارش کی گئی۔

خط کا عکس—۔فہد چوہدری
خط کا عکس—۔فہد چوہدری

اسد عمر نے اپنے خط میں کہا کہ کمیٹی نے حکومت کو مل کی نجکاری کی بجائے اس کی مالی اعانت پر غورکرنے کی تجویز دی تھی۔

مزید کہا گیا کہ 21 جولائی 2016 کے اجلاس میں اسٹیل ملز کے سی ای او نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ مل کو گیس کی فراہمی بند کرکے انتہائی نقصان پہنچایا گیا اور گیس جان بوجھ کر اُس وقت منقطع کی گئی جب مل 65 فیصد پیداواری اہلیت حاصل کر چکی تھی۔

خط کے مطابق اسٹیل ملز کو منافع بخش حالت میں لانے کے لیے77 فیصد پیداواری اہلیت کی سطح تک لے جانے کی ضرورت تھی، ساتھ ہی سوال کیا گیا کہ جب مل اتنی بہترین پیداواری صلاحیت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو اس کی فروخت کا کیا جواز ہے؟

کمیٹی نے متفقہ طور پر وزیراعظم سے اسٹیل ملز کو بچانے اور اس قومی اثاثے کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھانے کی درخواست کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کیلئے سفارشات کی تیاری

یاد رہے کہ حال ہی میں چیئرمین محمد زبیر کی سربراہی میں ہونے والے نجکاری کمیشن بورڈ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے اثاثے فروخت نہیں کیے جائیں گے تاہم ادارے کو 30 سال کے لیے نجی سرمایہ کار کے حوالے کردیا جائے گا۔

اجلاس کے سامنے پیش کیے گئے آپشنز کے مطابق یا تو پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری یا پھر اسے 45 سال کے لیے لیز پر دینے کے معاملات زیر غور آئے، تاہم طویل بحث کے بعد لیز کا دورانیہ کم کرکے 30 سال کرکے اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کی رضامندی ظاہر کردی گئی۔

یاد رہے کہ کچھ ہفتے قبل وزارت صنعت و پیداوار نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ملازمین کو تنخواہیں نہ دینے کی وجہ سے مل کے ملازمین شدید مشکلات کا دوچار ہیں، 2 سال سے زائد عرصے سے ملازمین کی تنخواہیں وفاقی بجٹ سے دی جارہی ہیں اور اب بھی اکتوبر 2016 سے ان کی تنخواہیں دینا باقی ہیں جبکہ گذشتہ 3 سال سے پاکستان اسٹیل ملز کا آڈٹ بھی نہیں ہوسکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں