کراچی: سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے احکامات کے بعد ٹریفک پولیس نے ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں اوبر اور کریم کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ان کی 4 گاڑیوں کو تحویل میں لے لیا، جب کہ حکومت پنجاب نے بھی ان سروسز کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

ڈی آئی جی ٹریفک آصف اعجاز کے مطابق انہوں نے محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے احکامات کے بعد ان سروسز کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا۔

اس سے پہلے پنجاب ٹرانسپورٹ اتھارٹی (پی ٹی اے) نے لاہور میں چلنے والی کریم، اوبر اور اے ون ٹیکسی جیسی سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکریٹری کی جانب سے چیف ٹریفک پولیس آفیسر لاہور اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ٹرانسپورٹ کمپنی لاہور کو بھیجے گئے ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ ایپس کا استعمال کرکے صارفین کو ٹیکسی کی سہولیات فراہم کرنے والی کریم، اوبر اور اے ون جیسی کمپنیاں روٹ پرمٹ اور گاڑیوں کی فٹنیس سرٹیفکیٹ کے بغیر چل رہی ہیں، جس کی وجہ سے حکومتی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ عام گاڑیوں کو کسی بھی ریگولیٹری باڈیز کے ذریعے رجسٹرڈ کرائے بغیر سروس میں شامل کیا گیا، عام لوگوں کی جانب سے ایسی گاڑیوں میں سفر کرنا سیکیورٹی رسک ہے۔

اس اعلامیے کے مطابق آن لائن رجسٹریشن کے بعد صارفین کو سفر کی سہولیات فراہم کرنے والی ان کمپنیوں کی گاڑیاں کمرشل بنیادوں پر بغیر پرمٹ روٹ کے چل رہی، ہیں جو موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 (ایم ڈبلیو او) کے سیکشن 2(5)، (20)، سیکشن 39 اور سیکشن 40 سمیت رینٹ اے کار سروس پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے مزید 5 شہروں میں کریم سروس کا آغاز

صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے متعلقہ حکام کو کیب سروس فراہم کرنے والی ان کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عوام کے تحفظ اور حکومتی روینیو میں اضافے کے لیے ان کمپنیز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔

نوٹی فکیشن میں متعلقہ حکام کو یہ ہدایات بھی کی گئیں ہیں کہ ان کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے متعلق اعلیٰ انتظامیہ کو یومیہ بنیادوں پر معلومات سے آگاہ کیا جائے۔

سندھ حکومت کا اوبر اور کریم کو نوٹس

صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید ناصر حسین شاہ نے اوبر اور کریم سروس کو بند کرنے والی باتوں کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے دونوں کمپنیوں کو نوٹسز بھیج دیے ہیں، جن کے جوابات کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے اوبر کے ڈرائیورز کو گرفتار کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی ٹریفک نے ڈرائیورز کو کسی اور مسئلے کے تحت گرفتار کیا ہوگا۔

دوسری جانگ سندھ حکومت کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے سیکریٹری طٰحہٰ فاروقی نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ٹریفک پولیس کو خط لکھ کر اوبر اور کریم کی سروسز بند کرنے کا کہا ہے۔

سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو بھی اوبر اور کریم کی موبائل ایپس بند کرنے کے لیے کہا ہے، کیوں کہ ان کمپنیوں نے گاڑیوں کے فٹنیس سرٹیفکیٹ اور نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ( این او سی) کے بغیر اپنی سروسز شروع کر رکھی ہیں۔

طٰحہٰ فاروقی کے مطابق اوبر اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے عہدیداروں کے درمیان چند ماہ سے مذاکرات جاری ہیں، مگر اوبر کی ایک ہزار سے 1500 کے درمیان کاروں میں سے صرف 8 سے 10 کاریں احکامات پر عمل کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کریم سے بھی مذاکرات کر رہی ہے، لیکن انہوں نے بھی قوانین پر عمل درآمد کرنے میں آمادگی ظاہر نہیں کی۔

اوبر اور کریم کی سروس کے خلاف کارروائی شروع کردی

ڈی جی آئی ٹریفک آصف اعجاز شیخ نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے حکومتی خط موصول ہونے کے بعد اوبر اور کریم کے خلاف کارروائی شروع کردی، ابھی تک چار گاڑیوں کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

ڈی آئی جی کے مطابق انہیں موصول ہونے والے خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ کمپنیاں بغیر اجازت کے غیرقانونی طور پر چل رہی ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ صرف حکومتی احکامات پر عمل کر رہے ہیں، غیر قانونی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔

’رائیڈ قوانین بنانے کیلئے حکومت سے مذاکرات جاری ہیں‘

کریم کے منیجنگ ڈائریکٹر جنید اقبال نے فیس بک کے ذریعے اپنے پیغام میں کہا کہ ’چونکہ موبائل ایپ کے ذریعے سفر کی سہولت حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، جس کے لیے گزشتہ 5 سال میں دنیا کے تقریباً 100 ممالک میں قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کریم نے لوگوں کو روزگار کا ایک ایسا ذریعہ فراہم کیا جس سے ایک موٹر سائیکل خریدنے کی طاقت رکھنے والا شخص بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، جبکہ ہم حکومت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے آسانی بھی پیدا کر رہے ہیں۔‘

جنید اقبال نے کہا کہ ’کریم نے ملک میں شیئرڈ اکانومی کے حوالے سے پہلا قدم رکھا ہے اور ہماری اس حوالے سے حکومت پاکستان کے اداروں سے بات چیت چل رہی ہے کہ سروس کو کن قوانین کے تحت جاری رکھا جائے اور ہم یہ قوانین بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

انہوں نے حکومت پاکستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ اس نئی ٹیکنالوجی کو اپنے صوبوں میں قبول کریں، کیونکہ اس میں پاکستان کی بھلائی ہے اور اس سے لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا۔

اوبر اور کریم کیا ہیں؟

کریم اور اوبر نامی ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں موبائل ایپلیکیشن سروس کے ذریعے ٹیکسی کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔

ان موبائل ایپس کا استعمال کرتے ہوئے صارف اپنے موجودہ مقام پر کریم کار کو بلوا سکتے ہیں جبکہ اس کے ذریعے باآسانی کسی جگہ سفر کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'اوبر' کے بعد 'کریم' کی رکشہ سروس؟

یہ دونوں کمپنیاں لاہور اسلام آباد اور کراچی سمیت پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں اپنی سروسز فراہم کرتی ہیں، کریم نے گزشتہ برس نومبر میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے بعد پاکستان کے مزید 5 شہروں میں اپنی سروس کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے کریم نے حیدرآباد، ملتان، گجرانوالہ، پشاوراور فیصل آباد میں گاڑیاں رکھنے والے شہریوں سے درخواستیں طلب کیں۔

اوبر اور کریم کمپنیاں ٹیکسی سروس سمیت رکشہ سروس بھی فراہم کرتی ہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

aBDULLAH Jan 31, 2017 12:55pm
Transport department don't care about people.....they just need money that's it.
shahzad Jan 31, 2017 01:43pm
our nation only deserve worst like our politicians . now uber/crem should pay per visit portion to somebody .. to work for the betterment of people
shahid Jan 31, 2017 06:49pm
ANOTHER DISCOMFORT ACTION TAKEN BY CORRUPT MAFIA, THEY DON'T SEE OUR NATION SPECIALLY TO TRAVEL INSIDE CITY COMFORTABLY WITH REASONABLE FARE. THEY JUST WANT TO FIX COMMISSION WITH UBER /CREAM FOR CONTINUATION.
Noor Mustafa Feb 01, 2017 08:03am
Actually they started without paying their due share . . . Hahaha
Ravi shankar Feb 01, 2017 09:37pm
میرے خیال سے سول سوسائٹی اور میڈیا کی شخصیات کو چاہئے کہ وہ عدالت میں جائیں اور عوام کے حق کیلئے پٹیشن دائر کریں۔ سیکورٹی کلیئرنس اور فٹنس سرٹیفکیٹ کے نام پر پابندی عائد کرنے والوں کو کھٹارا بسوں اور دھواں چھوڑتے ہوئے رکشا کی سیکورٹی کلیئرنس اور فٹنس کا خیال کیوں نہیں آتا؟