پاکستان میں جب بھی طاقتور طبقہ کوئی زیادتی کرے، تو لبرلز کا سب سے عمومی ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ 'ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں.'

جنوری میں لبرل سماجی کارکنان کی گمشدگیوں کے بعد کی صورتحال میں بھی یہی دیکھنے کو ملا. زیادہ تر معاملات میں یہ بات قابل فہم اور ضروری بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے کے تناظر میں دیکھیں، جہاں تنقیدی تقریر اور سیاسی صاف گوئی بھی سزائے موت کا مرتب ٹھہرا سکتی ہے وہاں خوف کی گرفت توڑنے کے لیے طاقت کے سامنے سچ بولنا اور سیاسی امکانات کے دائرے کو وسعت دینا نہایت ضروری ہے۔

مگر حالیہ گمشدگیوں اور کارکنان کو بدنام کرنے کی قابل مذمت اور مربوط مہم کو مد نظر رکھتے ہوئے اس رجحان کو فوری طور پر دوبارہ جانچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس کی شروعات ترقی پسند سیاست کو وسعت کی نگاہ سے دیکھنے سے کرنی پڑے گی جو کہ صرف آواز اٹھانے یا احتجاج کرنے جیسے کاموں سے آگے ہے۔

'آواز اٹھانے' کا کہنا، دنیا بھر کی لبرل تکثیریت کی بنیاد ہے۔ اسے اکثر مطلق العنانیت کے تحت جاری رہنے والی ناانصافیوں اور متعصب رویوں کے خلاف ایک ضروری نسخہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سیاسی عمل کی ایک قسم کی طور پر ہمیشہ سے ہی لبرل سیاسی فلسفے سے بندھا رہا ہے، جس کی وضاحت ہینا ایرینڈ کے مضمون ٹروتھ اینڈ پولیٹکس (سچ اور سیاست) میں موجود ہے۔

یہ طریقہ، سیاست کو خاص طور پر ایک مباحثے کی صورت میں دیکھتا ہے، جس میں مختلف نظریات کے درمیان بحث ہوتی ہے، اور جس میں شہری اپنی اپنی آزادیءِ رائے کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے طرزِ عمل کا فیصلہ کرتے ہیں (تبھی تو لبرل فریم ورک میں آزادیءِ اظہار کی اتنی حرمت ہے)۔

پڑھیے: ترقی پسندی کے خلاف فتووں کا لازوال فیشن

بطور ایک کارکن کی حکمت عملی کے، آزادیءِ رائے نے سوشل میڈیا کے اس دور میں غیر معمولی وسعت و حیثیت حاصل کر لی ہے، جہاں سیاسی ایجنڈوں کی خدمات سر انجام دیتے ہوئے لفظوں کو اس رفتار اور وسعت کے ساتھ پھیلایا اور مسلح بنایا جاسکتا ہے کہ جس کا چند سالوں قبل صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا.

موجودہ دہائی نے ایسے لاکھوں سوشل میڈیا کارکنوں کو جنم دیا ہے جو زیادہ تر میمز، ویڈیوز، بلاگز اور ٹوئیٹس کے ذریعے سیاسی شرکت کرتے ہیں، اکثر ان کا واحد مقصد اپنے مخالفین کی نظریاتی کمزوریوں کو 'سامنے لانا' ہوتا ہے اور پھر وہ لوگ اپنی فتح کا پیمانہ شیئرز اور ری ٹوئٹس کو بنا دیتے ہیں۔

حقیقی تناظر میں دیکھیں تو سیاست صرف مد مقابل خیالات اور رائے کا نام نہیں ہے — اس میں اہم سماجی اور معاشی قوتیں، مادی مفادات کے ساتھ شامل ہوتی ہیں جو کہ مختلف طبقاتی، نسلی، قومی، مذہبی اور نظریاتی گروہ بندی کے تحت مجتمع ہیں۔ سیاست صرف مباحثوں اور اظہار خیال کا نام نہیں، بلکہ یہ ان مشترکہ قوتوں کو منظم کرنے کا طریقہ ہے کہ جس سے ان خیالات اور مفادات کو مزید تقویت پہنچائی جاسکے۔

یہ نہ صرف کسی شدید سیاسی بدعنوانی اور سیاسی حلقوں کا امیدوں پر نہ اترنے کا نتیجہ ہی ہے؛ بلکہ یہ ریاست کی جانب سے مسلسل جاری، تعلیم، تاریخ کی تبدلیوں اور میڈیا سازبازی کے ذریعے، سوچے سمجھے جمہوریت مخالف رویوں کا بھی نتیجہ ہے، جو سیاسی شراکت کاری کے خیال کو تباہ کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

اور منظم ہونے سے مراد صرف خیالات کو الفاظ فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق سیاسی تنظیمیں قائم کرنے، طویل المدتی حکمت عملی بنانے، ادارہ سازی، اتحاد قائم کرنے اور اجتماعی اقدامات سے ہے تاکہ مخصوص مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ جیسے اجتماعی اقدامات کے ایک نظریہ دان کے مطابق کسی سماجی حلقے کو ایک مضبوط سیاسی حلقے میں تبدیل کرنے کا مطلب ہی منظم ہونا ہے۔


پاکستان میں نفرت انگیزی، دہشتگردی اور مطلق العنانیت کے خلاف شاید ہی کبھی 'منظم ہونے' کی اپیل کی گئی ہو. ہمارے ملک کی لبرل سیاست کی لغت سے یہ لفظ واضح طور پر غائب ہے.


جہاں ملک کی لبرل اقلیت الیکٹرانک میڈیا اور سماجی سرگرمیوں میں اچھی خاصی نمائندگی رکھتے ہیں، وہاں گنے چنے چند ہی ایسے لوگ ہیں جو اسٹریٹجک سیاسی فہم ترتیب دینے کے عمل جیسے پیچیدہ کام میں مصروف ہیں۔

اس کی ایک اہم وجہ طبقہ ہے۔ آج زہادہ تر لبرلز اور ترقی پسندوں کا تعلق معاشرے کے نسبتآ صاحبِ ثروت اور بہتر تعلیم یافتہ طبقے سے ہے جن کے لیے سیاسی طور پر منظم ہونا زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر نہیں ہے, مثلاً، ان لوگوں کی طرح جو بے ہنگم بستیوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے سر پر کسی بھی وقت گھر خالی کروائے جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے.

مگر اسے نظرانداز کرنے کے پیچھے کچھ واضح تاریخی وجوہات بھی ہیں۔ ایک حد تک اس کا تعلق سیاسی تنظیموں کے بارے میں گہری جڑوں تک پیوست شکوک شبہات ہیں، چنانچہ کوئی بھی ایسی چیز جس کا عوامی سیاست سے دور کا بھی تعلق ہو، مثلآ سیاسی طور پر منظم ہونے، کو بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے.

لیکن سیاسی نظام سے دور رہنے کی واحد وجہ سیاست میں بدعنوانی نہیں ہے، بلکہ یہ ریاست کی جانب سے جان بوجھ کر تعلیم، تاریخ میں تبدیلی، اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے غیر جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے کی وجہ سے ہے. ریاست کے ان اقدامات نے سیاست میں حصہ لینے کے تصور کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں.

مزید پڑھیے: دائیں اور بائیں بازو کا مقابلہ

یہ ذہنیت لبرل حلقوں میں اتنی تہہ تک سما گئی ہے کہ جہاں مسئلہ بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا ہو، وہاں بھی غیر سیاسی رہنے کی ضد کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ممتاز قادری کے حامی مولویوں کی پیروی میں اسلام آباد تک آنے والے ہجوم کے خلاف سول سوسائٹی کے رد عمل کا تعین کرنے کی خاطر مقامی کارکنان نے ایک اجلاس منعقد کیا. ایک دوست نے ہجوم کے ردِ عمل میں تحریک میں مقامی سیاسی جماعتوں کو شامل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کے جواب میں ایک خاتون، جو سول سوسائٹی کی اہم کارکن ہیں، نے فوراً کہا، "نہیں نہیں، ہم اسے سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتے۔" حیرت ہے کہ خطرے کا باعث بننے والی منظم انتہاپسندی کا مقابلہ اس وقت تک کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ جب تک ہم اسے ایک سیاسی جنگ کے طور پر نہیں دیکھ لیتے۔

اس کے علاوہ ایک اہم تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ ترقی پسند 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں یونیورسٹیوں اور فیکٹریوں میں خود کو حاصل سیاسی جگہ کھو چکے ہیں. طلباء سیاست، جو پاکستان کی سب سے ترقی پسند تحریکوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے، ضیاء دور میں طلباء یونینز پر پابندی کے بعد 33 سال سے غیر قانونی ہیں. ایک پوری نسل نظامِ تعلیم سے ذرہ برابر بھی سیاست میں حصہ لیے بغیر ہو کر گزر گئی ہے.

مزدور یونینز بھی ضیاء دور سے زیرِ عتاب رہیں، جنہیں نجکاری اور کام کے غیر رسمی ہونے نے مزید نقصان پہنچایا. نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تین فیصد سے بھی کم ملازمین و مزدور یونینز کا حصہ ہیں.


ترقی پسند سیاست کی نشونما کے لیے ضروری یہ دو ادارے تقریبآ ختم ہو چکے ہیں، چنانچہ مرکزی دھارے کی سیاست اب احتساب سے بالاتر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور منظم تاجروں و صنعتکاروں کے ہاتھ میں ہے جن کے لیے ترقی پسند اصول شاید ہی ترجیح ہوں.


دوسری جانب ملکی دائیں بازو کو حاصل تنظیمی ڈھانچے ترقی پا رہے ہیں جن میں مذہب کو سیاسی و معاشی فائدے کے لیے استعمال کرنا بھی شامل ہیں. یہ لاکھوں ڈالر سالانہ کی صنعت بن چکے ہیں جن کے گہرے مادی مفادات ہیں سیاسی جماعتوں سے ٹی وی چینلز اور فلاحی تنظیموں تک. ان کی حفاظت کے لیے تعداد بھی موجود ہے اور ہتھیار بھی.

یہ ایسا سیاسی دشمن نہیں ہے کہ جسے محض "خیالات کی جنگ" سے زیر کیا جاسکتا ہو۔ گزشتہ ہفتوں کے واقعات سیاست کو صرف اظہارِ رائے تک محدود کر دینے سے اٹھنے والے مسائل، اور اس ناہموار سیاسی اکھاڑے میں سخت تنظیم سازی کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہیں.

بلاگرز کی گمشدگیاں اور ان کے خلاف مہم ایک واضح اشارہ ہیں کہ اب ہدف سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقیدی بیان بازی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مہم صرف ان بائیں بازو کے منظم نیٹ ورکس کی جانب سے چلائی گئیں جن کا خود سلمان حیدر حصہ تھے۔ اگر یہ نیٹ ورکس نہ ہوتے تو شاید بلوچستان، فاٹا اور سندھ کی ہی طرح یہ گمشدگیاں بھی پس منظر میں کھو چکی ہوتیں۔

جانیے: میں اور سلمان حیدر دوست کیسے بنے

اس تاریک و پر خطر وقت میں پاکستان میں جڑ پکڑنے والے فاشزم کا کوئی فوری حل دستیاب نہیں ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ فقط ترقی پسند، بلکہ وہ تمام شہری جو موجودہ حالات کے خلاف ہیں، انہیں اپنی سیاسی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا اور منظم ہونا ہوگا؛ سیاسی تنظیم سازیاں کرنی ہوگی یا موجودہ تنظیموں میں شامل ہونا ہوگا؛ اجتماعی تحرک پیدا کرنے کے لیے مراکز کو دوبارہ متحرک کرنا ہوگا اور نئے مراکز تک وسعت دینی ہوگی؛ طاقت اور دولت کی تقسیم کے لیے نئی حکمت عملیاں مرتب کرنی ہوں گی، اور ان پر عمل درآمد کروانا ہوگا، اور ہمدرد اور مصالحتی افراد کو ساتھ ہم قدم کرنا ہوگا اور طبقاتی، نسلی، قومی اور صنفی حلقوں کے درمیان سیاسی تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔

ہاں، بالکل آواز اٹھانے اور احتجاج کو جاری رہنا چاہیے، مگر رد عمل کو اس حد تک محدود نہیں رکھنا؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ منظم سیاسی قوت کو پیدا کرنے کے لیے ایک حکمت عملی ترتیب دینا بھی لازم ہے۔ اگر ہم صرف اس طریقہ کار پر عمل پیرا ہوئے تو بالآخر ہم اس عوامی سیاسی متبادل کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ جو اس فاشسٹ لہر کو پیچھے دھکیل سکے گا۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم صرف گمشدہ افراد کو گنتے رہیں گے اور ہمارے درمیان سے لوگ خاموش کروائے جاتے رہیں گے.

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں