واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد درجنوں سربراہان مملکت سے ٹیلی فون کے ذریعے براہ راست گفتگو کی لیکن دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایشین سپرپاور چین کے صدر شی جن پنگ سے براہ راست گفتگو کرنے سے گریز کیا۔

چینی صدر شی جن پنگ نے بھی عہدہ سنبھالنے پر امریکی صدر کو مبارک باد کا ٹیلی فون کرنے سے گریز کیا تھا اور اس سلسلے میں ایک خط تحریر کردیا تھا۔

چند ہفتوں بعد اب ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی چینی صدر کی جانب سے بھیجے جانے والے مبارکباد کے خط کا جواب دے دیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ترجمان سین اسپائسر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اپنے خط میں ٹرمپ نے چین کے ساتھ تعمیری تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جو کہ امریکا اور چین دونوں کے لیے سود مند ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'یہ ملک ہمارا ہے'، چینی اہلکارکا اوباما کااستقبال

چین اور امریکی صدور کے درمیان خطوط کے تبادلے دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کی عکاسی کرتے ہیں، امریکا کو تجارت سے لے کر سیکیورٹی تک کے معاملات میں چین سے اختلافات ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر شدید تنقید کی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ چین امریکیوں کی نوکریاں چوری کرنے میں مصروف ہے۔

دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے رہنماؤں کے درمیان خط کے ذریعے رابطہ ہونا اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

تاہم چین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خط کا جواب دیے جانے پر بھی خوش ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی صدر شی جن پنگ اور چینی عوام کے لیے تہہ نیتی پیغام اور نئے سال کی مبارکبارس بھیجنے پر ان کے مشکور ہیں‘۔

مزید پڑھیں: امریکا-چین بہتر تعلقات کا واحد راستہ تعاون: چینی صدر

انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ملکوں کے لیے باہمی تعاون ہی بہترین اور درست انتخاب ہے‘۔

واضح رہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے تائیوان کی صدر سائی انگ وین کی جانب سے کی جانے والی فون کال وصول کی تھی جس پر چین نے سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

امریکا نے 1979 میں تائیوان سے سفارتی تعلقات مکمل طور پر ختم کرلیے تھے اور تائیوان پر چین کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

1979 کے تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت امریکا تائیوان کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتا ہے اور اسے اسلحہ بھی فروخت کرتا ہے تاہم سائی انگ وین کو سربراہ مملکت تسلیم نہیں کرتا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں