راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاک-افغان بارڈر پر سیکیورٹی مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے بڑھائی گئی اور بارڈر پر ہر طرح کی غیر قانونی نقل و حرکت روکی جائے گی۔

پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کے ٹوئٹر پیغام کے مطابق آرمی چیف کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں اعلیٰ سطح کا سیکیورٹی اجلاس ہوا۔

ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بلا رنگ و نسل اور تعلق سب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

بیان کے مطابق جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان مشترکہ کوششوں کو جاری رہنا چاہیئے۔

مزید پڑھیں:پاک افغان سرحد پر ’جماعت الاحرار‘ کے ٹھکانوں پر حملہ

آرمی چیف نے موثر بارڈر کوآرڈینیشن اور افغان سیکیورٹی فورسز سے تعاون کی ہدایات دیں تاکہ دہشت گردوں سمیت ہر قسم کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکا جاسکے۔

جنرل قمر باجوہ نے افغان حکام کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کے حوالے سے تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا۔

آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دو روز قبل پاک فوج نے پاک افغان سرحد پر دہشت گرد تنظیم ’جماعت الاحرار‘ کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے کئی ٹھکانوں کو تباہ کیا۔

حملے میں مبینہ طور پر جماعت الاحرار کے ڈپٹی کمانڈر عادل باچا کا کیمپ، تربیتی کمپاؤنڈ اور 4 دیگر کیمپ تباہ کردیئے گئے، تاہم ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔

دوسری جانب پولیٹیکل انتظامیہ نے پاک- افغان سرحد کے قریب آباد لوگوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو محفوظ مقام کی طرف نقل مکانی کرجائیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان سفارتی حکام جی ایچ کیو طلب، 76 دہشت گردوں کی فہرست حوالے

3 روز قبل افغان سفارتخانے کے اعلیٰ حکام کو بھی جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) طلب کرکے افغانستان میں چھپے 'انتہائی مطلوب' 76 دہشت گردوں کی فہرست حوالے کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ یا تو ان دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے یا پھر انھیں پاکستان کے حوالے کردیا جائے۔

اس سے دو روز قبل بھی پاکستانی وزارت برائے خارجہ امور کے ایک عہدے دار نے اسلام آباد میں تعینات افغان ڈپٹی ہیڈ آف مشن سید عبدالناصر یوسفی سے ملاقات میں افغانستان میں سرگرم تنظیموں کی جانب سے پاکستان پر حملوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔

وزارت برائے خارجہ امور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اقوام متحدہ و یورپین کمیشن (یو این اینڈ ای سی) کی ایڈیشنل سیکریٹری تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار کی کارروائیوں پر تشویش ہے جو کہ افغانستان میں موجود اپنی پناہ گاہوں سے آپریٹ کررہی ہے۔

مزید پڑھیں:'دہشتگرد پھر افغانستان میں منظم ہورہے ہیں'

واضح رہے کہ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کی حالیہ لہر میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور وہاں موجود ان کی قیادت کے ملوث قرار دیا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپنے گذشتہ بیان میں خبردار کیا تھا کہ دہشت گرد ایک بار پھر افغانستان میں منظم ہورہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

دوسری جانب پاک - افغان سرحد پر طورخم گیٹ کو بھی سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر غیر معینہ مدت تک بند کردیا گیا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ پاکستان کے مختلف شہروں میں دھماکے ہوچکے ہیں۔

دہشت گردی کی نئی لہر

  • رواں ماہ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 13 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی تھی۔

  • 13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بھی’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔

  • 15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • 16 فروری کو صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 80 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو ہی بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔

دوسری جانب آئی ایس پی آر نے سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملے کے بعد 24 گھنٹے کے دوران 100 سے زائد 'دہشت گردوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں