اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا معاملہ تاحال حل نہ ہونے کی وجہ سے کابل نے اسلام آباد میں ہونے والے اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے اجلاس میں اعلیٰ سطح کے نمائندے بھیجنے سے انکار کردیا۔

اجلاس میں نہ تو افغان صدر اشرف غنی شرکت کریں گے اور نہ ہی اس میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ شریک ہوں گے، جب کہ افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی بھی ای سی او کی وزراء کونسل کے 10 رکنی اجلاس سے دور رہیں گے، جو منگل 28 فروری کو ہوگا۔

افغانستان کی وزارت خارجہ اور میزبان ملک پاکستان نے پیر 27 فروری کو کہا کہ رکن ممالک کے اعلیٰ سطح کے نمائندوں کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ افغانستان کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی کے بجائے پاکستان میں تعینات افغان سفیر اور صدر کے خصوصی ایلچی ڈاکٹر عمر زاخیلوال ای سی او میں شرکت کریں گے۔

اجلاس میں دیگر تمام رکن ممالک کے سربراہان شامل ہوں گے، جب کہ ازبکستان کی جانب سے نائب وزیر اعظم شرکت کریں گے، جس کی تصدیق کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی او: پاکستان کا عالمی معیار کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر زور

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ تھے، اُس وقت مزید خراب ہوگئے، جب اسلام آباد نے ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں کابل کی سرزمین استعمال ہونے کے الزامات لگائے۔

پاک فوج نے پاکستان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر احتجاجاً پاک-افغان سرحد کو بند کردیا اور سرحد کے قریبی علاقوں پر مبینہ شیلنگ بھی کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے گذشتہ دنوں کہا کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی پر ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں، انہوں نے امید ظاہر کی کہ ای سی او اجلاس کی سائیڈ لائن میں اس حوالے سے بہتری دیکھنے کو ملے گی۔

دونوں جانب سے مجوزہ لائحہ عمل کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا، تاہم افغانستان کی جانب سے ای سی او اجلاس میں اعلیٰ سطح کے نمائندے کی عدم موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی پیش رفت میں ناکام رہے ہیں۔

اجلاس میں اعلیٰ سطح کی نمائندگی کے لیے کابل ابھی تک غور کر رہا ہے، اس سے قبل سرتاج عزیز نے بتایا تھا کہ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کی شرکت یقینی ہے، لیکن پاکستان اس سے بھی اعلیٰ سطح کی نمائندگی کی امید کر رہا تھا۔

مزید پڑھیں: 'اقتصادی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس پاکستان میں ہی ہوگا'

اس حوالے سے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان پرامن پڑوسی کے طور پر خوشحالی کے اس سفر میں شریک ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد، کابل میں امن چاہتا ہے اور اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ کابل پاکستان کے خلاف اپنی زمین کے استعمال کو روکے گا۔

خیال رہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کا مقصد توانائی، بنیادی ڈھانچے، ٹرانسپورٹ اور تجات کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانا ہے،اجلاس کے اختتام پر اسلام آباد اعلامیہ بھی منظوری کے بعد جاری کیا جائے گا۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے مطابق پاکستان کی جانب سے اجلاس میں خطے کے عوام کے فائدے کے لیے زیادہ رابطے اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا جائے گا۔

افغانستان کو ای سی او کے معاشی منصوبوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، تجزیہ کاروں نے افغانستان کی عدم دلچسپی کے باعث منصوبوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں پریشانی کا خدشہ ظاہر کیا ہے، مگر سیکریٹری خارجہ اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان کے بغیر بھی منصوبوں کی تکمیل مکمل ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی او اجلاس کا اگلا میزبان، افغانستان

سیکریٹری خارجہ نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ 'پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مغروبی روٹ جب پاکستان سے چین میں داخل ہوتا ہے تو منصوبوں کا ایک دوسرے سے جڑجانا ممکن ہوجائے گا، کیوں کہ چین پہلے ہی تاجکستان اور کرغستان سے جڑا ہوا ہے اور ان ممالک کے ذریعے منصوبوں کو قازقستان سے جوڑا جاسکتا ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم افغانستان کو اس منصوبے سے جوڑنے سے وہاں استحکام آئے گا، تاہم انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ 'اس کے لیے افغانستان میں استحکام کی ضرورت ہے‘۔

سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ 'عام طور پر ای سی سی او اجلاسوں میں اعلیٰ سطح کی نمائندگی لازمی نہیں ہوتی اور اس سے پاکستان کی تنہائی ظاہر نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے کسی کو تنہا کیا جاسکتا ہے'۔


یہ خبر 28 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں