اگر لاہور قلندرز کے چاہنے والوں کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف ایک روز پہلے ملنے والی فتح کے بعد کچھ امید اور حوصلہ ملا تھا، یا پھر مخالف ٹیموں کے دلوں میں بین ڈنک اور سمیت پٹیل کی بیٹنگ سے کوئی خوف پیدا ہوا تھا تو اس کی طوالت صرف 24 گھنٹے ہی رہی۔

ایک ٹیم جو 24 گھنٹے پہلے اتنی مضبوط دکھائی دے رہی تھی کہ اگر اس کے سامنے مضبوط ترین ٹیم بھی آجائے تو وہ اسے پچھاڑ دے گی، اسی ٹیم کے کھلاڑی اگلے ہی دن کچھ بھی ٹھیک کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ٹاس ضرور لاہور قلندرز نے جیتا اور ٹورنامنٹ کی روایت کے مطابق پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا لیکن اس پورے میچ میں یہ واحد مثبت چیز تھی، اس کے بعد لاہور کے لیے کچھ اچھا نہیں رہا۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف فاتح ٹیم میں 2 تبدیلیاں کی گئیں۔ ایک مجبوری میں اور ایک تبدیلی اب ناگزیر ہوچکی تھی۔ مجبوری میں کی جانے والی تبدیلی شاہین شاہ آفریدی کی تھی، جو انجری کی وجہ سے میچ نہیں کھیل سکے۔ اور جو تبدیلی ناگزیر ہوچکی تھی وہ فخر زمان کی تھی، جو مسلسل خراب کھیلتے رہے، مگر اب انتظامیہ نے کہا ’بس‘ بہت ہوا، اور ان کی جگہ سلمان بٹ کو موقع دیا گیا۔ یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا سلمان بٹ ٹی20 فارمیٹ کے لیے موزوں کھلاڑی ہیں؟ اس سوال کا جواب لاہور قلندرز کی انتظامیہ کے نزدیک تو ہاں میں ہی لگ رہا ہے، اسی لیے تو ان کو اسکواڈ کا حصہ بنایا تھا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ نے کراچی کنگز کے خلاف مہنگے ثابت ہونے والے تینوں باؤلروں محمد موسیٰ، فہیم اشرف اور احمد صفی عبداللہ کو باہر بٹھا دیا اور ان کے متبادل کے طور پر عمدہ نوجوان فاسٹ باؤلر عاکف جاوید، بائیں ہاتھ سے اسپن باؤلنگ کرنے والے ظفر گوہر اور آل راؤنڈر حسین طلعت کو شامل کیا گیا۔

حسین طلعت کی شمولیت پر سوالیہ نشان ضرور بنتا ہے جو اس ٹورنامنٹ میں بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں متاثر کرنے میں ناکام ہوچکے، لیکن فہیم اشرف اور عماد بٹ کی مہنگی ثابت ہونے والی باؤلنگ کے بعد ایک بیٹنگ آل راؤنڈر کی شمولیت بہتر سمجھی گئی۔

لاہور قلندرز کے فیلڈروں میں اگر کوئی جوش و جذبہ تھا تو وہ میچ کے تیسرے اوور کے بعد غائب ہوگیا۔ پہلے اوور میں صرف 4 رنز دینے والے سمیت پٹیل کو جب تیسرا اوور دیا گیا تو پہلے کولن منرو نے انہیں 2 چھکے رسید کیے اور پھر لیوک رونکی نے 2 چوکے۔

یہ بات کہنے میں تو عجیب لگ رہی ہے لیکن شاید یہی حقیقت ہے کہ اگر اس ٹورنامنٹ میں اب لاہور کو آگے جانا ہے تو ٹورنامنٹ کے درمیان ہی کپتان کی تبدیلی سے متعلق سوچنا ہوگا کیونکہ موجودہ کپتان تو خود اتنے گھبرائے اور پریشان رہتے ہیں وہ پوری ٹیم کو کیا اٹھائیں گے؟ پھر ان کی اپنی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قلندرز کی ٹیم، کپتان اور شاید انتظامیہ کو بھی کسی موٹیویشنل اسپیکر کے درجنوں سیشنز میں شرکت کی ضرورت ہے، کیونکہ صورتحال اب صرف خراب نہیں، خراب ترین ہوتی جارہی ہے۔

11 اوورز تک جاری رہنے والی اسلام آباد کی اوپننگ جوڑی نے نہ صرف سنچری پارٹنرشپ مکمل کی بلکہ اپنی زبردست کارکردگی سے قلندرز کے جسموں سے جیسے جان بھی نکال لی تھی۔ حارث رؤف اور شاہین آفریدی کے بعد لاہور قلندرز کو تیسرا جھٹکا میچ کے دوران اس وقت لگا جب عمدہ باؤلنگ کرتے ہوئے دلبر حسین ان فٹ ہوکر پویلین لوٹ گئے۔

لاہور قلندرز کے سلمان ارشاد کسی حد تک لاستھ ملنگا جیسے ایکشن سے باؤلنگ کرتے ہیں۔ مگرانہیں ابھی بہت سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سلمان یا تو بہت اچھی بال کرتے ہیں یا پھر بہت بُری، اتنی بُری کہ چھکے یا چوکے سے کم بات ہی نہیں ہوتی۔ لاہور کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کو پڑنے والی باؤنڈریوں کا تناسب کافی زیادہ ہے۔ عاقب جاوید کو اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

شاہین آفریدی کے باہر ہونے کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا وکٹ ملنے کی امیدیں بہت کم ہوگئیں۔ بس پھر وکٹ کے حصول کی خاطر سہیل اختر تقریباً ہر دوسرے اوور میں باؤلنگ میں تبدیلی کرتے رہے، لیکن بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والوں کے لیے خطرناک سمجھے جانے والے حفیط کو ناجانے انہوں نے کیوں بچا کر رکھا؟ اگر منرو کے خلاف حفیظ کو شروع میں لے آیا جاتا تو شاید جلدی وکٹ مل سکتی تھی، مگر حفیظ کو 12ویں اوور میں باؤلنگ دینا اور پھر 2 اوور میں صرف 11 رنز دینے کے باوجود انہیں دوبارہ نہ آزمانا یقینی طور پر لاہور کے کپتان کی ایک غلطی تھی۔

کپتان کی غلطیوں، فیلڈرز کی سستی، ایک بڑی اوپننگ پارٹنرشپ اور کسی حد تک نکمی باؤلنگ کے باوجود اسلام آباد یونائیٹڈ کا اسکور اتنا نہیں تھا کہ لاہور قلندرز خود کو میچ سے باہر محسوس کرتے۔

مگر وہ قلندر ہی کیا جو حکمتِ عملی کا سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھیں؟ اس لیے ہر بیٹسمین 5 اوور پہلے میچ ختم کرنے کے چکر میں ہر ایک گیند پر چھکا مارنے کی کوشش کرتا رہا اور پویلین کی جانب جاتا رہا۔

سب سے پہلی وکٹ کرس لن کی گری جو ڈیل اسٹین کی دوسری ہی گیند کو اسٹیڈیم سے باہر پھینکنا چاہتے تھے مگر گیند نے ایسا ہونے سے انکار کردیا اور یوں وہ کیچ آؤٹ ہوگئے، اور ان کے آؤٹ ہوتے ہی لاہور کی بیٹنگ سے روح ہی نکل گئی۔

لاہور قلندرز کے اسکواڈ پر نظر دوڑائی جائے تو احساس یہی ہوتا ہے کہ بیٹنگ میں لاہور کا بہت زیادہ دار و مدار کرس لِن پر کرلیا گیا ہے۔ باقی حفیظ ہوں یا سمیت پٹیل، بین ڈنک ہوں یا سہیل اختر، یہ ایک یا 2 اننگ تو کھیل سکتے ہیں مگر مسلسل اسکور کرنا شاید ان کے لیے مشکل ہے۔

فخر زمان کی مسلسل 4 میچوں میں ناکامی کے بعد سلمان بٹ کو موقع دیا گیا، لیکن انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنا اچھا وقت بہت پہلے گزار چکے ہیں اور اس اچھے وقت میں بھی سلمان بٹ کا ٹی20 اسٹرائیک ریٹ 113 تک ہی محدود تھا۔

سلمان بٹ کے لیے باؤنڈری لگانا ایک مسئلہ لگ رہا تھا اور اس میچ میں تو ان کا اسٹرائیک 100 سے بھی گرگیا اور جب وہ 24 گیندوں پر 21 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تو ان کا اسٹرائیک ریٹ 87.50 تھا۔ پھر صرف سلمان بٹ کو کیوں روئیں؟ لاہور کیا پاکستان کے سب سے تجربے کار محمد حفیظ کو دیکھ کر تو کل بھی ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے وہ ڈیل اسٹین کے خوف سے اب تک باہر نہیں آسکے ہیں۔ اگرچہ اس بار اسٹین نے حفیظ کی وکٹ تو نہیں لی مگر حفیظ ان کو کھل کر نہیں کھیل سکے اور 13 گیندوں پر 10 رنز بناکر عاکف جاوید کا شکار ہوگئے۔ اس اننگ میں حفیظ کا اسٹرائیک ریٹ 76.92 تھا۔

نویں اوور میں بین ڈنک کی وکٹ گری تو لاہور قلندرز کے میچ میں واپسی کے تمام امکان ختم ہوگئے۔ بس پھر وکٹیں کچھ اس رفتار سے گرنے لگیں جیسے ڈنک نے اس سیلاب کے آگے بند باندھ رکھا تھا۔ وہ تو بھلا ہو عثمان شنواری کا جنہوں نے 4 چھکوں کی مدد سے برق رفتار 14 گیندوں پر 30 رنز بنالیے، اگر وہ یہ اننگ نہیں کھیلتے تو شاید لاہور کی ٹیم 100 رنز بھی مکمل نہ کرپاتی۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے یہ جیت بہت ضروری تھی کیونکہ 6 میچوں میں ان کے صرف 5 پوائنٹس تھے اور مزید ایک شکست انہیں مشکلات کا شکار کرسکتی تھی۔ اسلام آباد یونائیٹڈ تو کسی حد تک مشکل سے نکل آئی ہے لیکن لاہور قلندرز شدید مشکلات کا شکار ہے۔ 5 میچوں میں لاہور قلندرز کے صرف 2 پوائنٹس ہیں، اور ایک مزید شکست انہیں ٹورنامنٹ سے تقریباً باہر کرسکتی ہے۔ اب واپسی کا کوئی راستہ بن سکتا ہے یا نہیں، اس کا جواب لاہور قلندرز کی انتظامیہ نے دینا ہے۔

اگر وہ اگلے راؤنڈ میں پہنچنا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ انقلابی کرنا ہوگا۔ ٹورنامنٹ کے درمیان میں کپتان بدلنا ایک مناسب عمل تو نہیں لیکن شاید یہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ سہیل اختر اس ٹیم کو سنبھالنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ قلندرز کو جوش اور جذبے کے ساتھ میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا کپتان چاہیے جو کھلاڑیوں کو کارکردگی دکھانے پر مجبور کردے۔ اسے وہ ٹیم دیں جو وہ چاہتا ہو تاکہ وہ بہترین نتیجہ دے سکے۔

باقی جہاں تک لوگوں کی محبت اور سپورٹ کا معاملہ ہے تو جب وہ پچھلے 4 سال مسلسل آخری پوزیشن پر رہنے کے باوجود کم نہیں ہوئی، تو امید یہی ہے کہ اب بھی ایسا نہیں ہوگا۔ لیکن قلندروں کو اب اس ون وے ٹریفک کی عادت کو ختم کرنا ہوگا، جب لوگ دیوانہ وار محبت کرتے ہیں تو پھر انہیں دیوانہ وار کھیل کر اور جیت کر بھی دکھائیے، تب ہی اصل مزہ آئے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

liaqat ali Mar 05, 2020 02:04pm
قصور سارا عاقب جاوید کا ہے، جس کو سمجھ ہی نہیں ۔ نہ کوئی گیم پلاننگ، نہ پور فیلڈنگ پہ کسی کی کلاس نہ آج تک کوئی ڈھنگ کا کیپٹین لے کے آیا، جب تک کوچ اور منیجمنٹ چینج نہیں ہوتی، لاہور قلندر کا کچھ نہیں ہو سکتا۔