وفاقی وزیر تجارت جام کمال نے کہا ہے کہ ہم اس ملک کی معیشت کے حوالے سے چیزوں کو بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے وزیر اعظم بڑے جذبے کے ساتھ اور محنت کے ساتھ کام کر رہے ہیں، وفاقی وزرا اور صوبائی حکومتیں نے نئی ذمہ داریوں کو سنبھال لیا ہے، پاکستان کو بہت چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہمیں اللہ سے بہتری کی امید ہے، یہ سب ہماری محنت پر مبنی ہے۔

پیپلز پارٹی کی کابینہ میں شمولیت کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں جیسے ایم کیو ایم، نیشنل پارٹی وغیرہ ان سب نے مل کے حکومت کی تشکیل میں حصہ ڈالا ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہم اس حکومت کا حصہ ہیں یا نہیں لیکن اسے بنانے میں سب کا ہاتھ ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جہاں تک کابینہ میں شمولیت کی بات ہے اس فیصلے میں پیپلز پارٹی کے اپنے خیالات اور تحفظات ہوسکتے ہیں مگر وزیر اعظم نے انہیں واضح طور پر کہا وہ ذمہ دارانہ انداز میں کابینہ کا حصہ بنیں، عوام ان سب جماعتوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر دیکھتی ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ پیپلز پارٹی کو کابینہ میں شامل کرنے کے لیے قائل کریں۔

بلوچستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بہت مسائل سے گزر رہا ہے، بلوچستان کے زد میں بھی یہی چیزیں آتی ہیں، اس کا رقبہ بہت بڑا ہے اور اتنے بڑے علاقے میں واقعات کا ہونا اتنا ہی بڑا بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات اس لیے بھی حساس ہیں کہ وہاں دو ممالک کی سرحدیں ہیں، جن وزیر اعلی نے وہاں ذمہ داری لی تو سب نے اپنے لحاظ سے وہاں بہتری کی کوشش ضرور کی ہوگی، اب وہاں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلی ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ ان کے مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

جام کمال نے بتایا کہ جب پاکستان کے اندرونی کاروباری مسائل حل نہیں ہوں گے، ان کی شکایتیں نہیں سنیں گے تب تک یہ معاملات حل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہین کہ یوٹیلیٹی اسٹورز سے مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے تو یہ درست نہین لیکن یہ ایک قدم ہے جو بہت عرصے سے جاری اور اس کے بڑھانا چاہیے، دینا میں پراسئنگ میکانزم ایسا نہیں ہے، ہمیں پرائس کنٹرول میکانزم کو بھی برقرار رکھنا ہے۔

حکومتی ویژن کے حوالے سے جام کمال نے کہا کہ پاکستان میں گورننس، مہنگائی کا مسئلہ ہے، عالمی معیشت کا بھی بہت اثر ہے، بیرونی سرمایہ کاری بھی کافی عرصے سے کم ہے، تو ہمارا ویژن ہے کہ پہلے ہاؤس کو آرڈر میں لانا ہے، جو گورننس اسٹرکچر ہے، ایف بی آر کے مسئلے ہیں اس کے ساتھ انرجی کے مسائل کو بہتر کرنے کےلیے دسکوز کو بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں پر بوجھ کیوں ڈالا جارہا ہے جو بل دے رہے ہیں، تجارت کے لیے بھی سے ایشوز کو بہتر کرنا ہے۔

جام کمال نے بتایا کہ حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اور وقت دینے کے لیے جامع اقدامات کرنے کے لیے کوشاں ہے، ہمارے پاس پالیسی کا انبار ہے اب اس کو نافذ کرنے کا وقت ہے، دنیا اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں جہاں فقدان ہیں ان کو حل کیا جانا چاہیے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انرجی کے مسائل کو حل کرنا اولین ترجیح ہے تاکہ بجلیوں کے نرخوں کو کم کیا جاسکے، اس میں گورننس کا بہت بڑا مسئلہ، دوسری اور تیسری چیز پاکستان میں صنعت کاری کو بڑھانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی معاشرے میں امن نہیں یوگا تو وہاں ماحول خراب ہوگا مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امن کیوں نہیں ہے، اگر کراچی جیسے بڑے شہر میں تجارت کم ہوگی، بیروزگاری بڑھے گی تو لا اینڈ آرڈر خراب ہوتا ہی ہوتا ہے، لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے وفاق اور صوبے ایک پیج پر ہیں، یہ ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں