پاکستان نے 2023 کے لیے انسانی حقوق رپورٹ میں عائد امریکی الزامات مسترد کردیے۔

’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ امریکا کی رپورٹ میں بے بنیاد اورحقائق کے منافی الزامات عائد کیے گئے۔

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی اس طرح کی غیر مطلوب رپورٹس کی تیاری کی سالانہ مشقوں میں معروضیت کا فقدان ہے اور ان کے طریقہ کار میں فطری طور پر خامیاں ہیں۔

بیان کے مطابق یہ رپورٹیں دوسرے ممالک میں سیاسی طور پر متعصبانہ انداز میں انسانی حقوق کا فیصلہ کرنے کے لیے ڈومسٹیک سوشل لینز کا استعمال کرتی ہیں، اس سال کی رپورٹ میں معروضیت کی کمی اور ایک بار پھر بین الاقوامی انسانی حقوق کے ایجنڈے کو سیاسی بنانا نمایاں ہے، یہ واضح طور پر دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے اس طرح بین الاقوامی انسانی حقوق کی بات چیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو اجاگر کرنے کے لیے ایک رپورٹ میں غزہ اور بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے انتہائی اہم مقامات کو نظر انداز یا کم کیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق غزہ کی تشویشناک صورتحال، انسانی امداد کو ہتھیار بنانا اور 33 ہزار سے زیادہ شہریوں کے قتل عام کو صرف سیاسی طور پر محرک رپورٹ ہی نظر انداز کرسکتی ہے، غزہ میں جاری نسل کشی پر امریکہ کی خاموشی انسانی حقوق سے متعلق نام نہاد ملک کی رپورٹوں کے پیچھے بیان کردہ مقاصد کے خلاف ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے آئینی فریم ورک اور جمہوری اخلاقیات کے مطابق اپنے انسانی حقوق کے فریم ورک کو مضبوط بنانے، بین الاقوامی انسانی حقوق کے ایجنڈے کو فروغ دینے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی بات چیت میں منصفانہ اور معروضیت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے۔

اس میں کہا گیا کہ اگر امریکا کو اس مشق میں شامل ہونا ضروری ہے، تو ہم امریکی محکمہ خارجہ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ پیچیدہ مسائل کا جائزہ لیتے وقت کم از کم مستعدی سے کام لے، ایسی رپورٹس کو حتمی شکل دینے میں معروضیت، غیر جانبداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اسے تمام حالات کے بارے میں سچ بولنے کے لیے مطلوبہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے انتہائی اہم مقامات پر مظالم کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔

یاد رہے کہ 22 اپریل کو جاری ہونے والی امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، اس میں الزام لگایا گیا کہ پاکستانی حکومت بھی بھارت کی طرح سول سوسائٹی کارکنان، انسانی حقوق کے محافظوں، اور صحافیوں کو اپنی سرحدوں سے باہر ڈراتی رہی یا بدلہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔

رپورٹ میں دونوں ممالک کی حکومتوں پر انسانی حقوق کی نمایاں خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے، پاکستان کے لیے کہا گیا کہ ’احتساب کے فقدان کے باعث بڑے پیمانے ذمے داران کو کارروائی سے استثنا ہے۔

رپورٹ میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے گزشتہ سال کے الزامات کو نمایاں کیا گیا جس میں حکومت پر دوسرے ممالک میں سیاسی بنیادوں پر قتل اور اغوا کی وارداتیں کرنے کا الزام لگایا گیا۔

رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ پاکستانی حکومتوں نے حکمت عملی کے طور پر جبری گمشدگیوں کی منظوری دی، کمیشن آف انفورسڈ ڈسپیئرنس کی جانب سے اگست میں جاری کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ 2011 سے کمیشن کو رپورٹ کیے گئے 9ہزار 967 لاپتا افراد کے کیسز میں سے 7ہزار 714 کو حل کیا گیا، جب کہ 2ہزار 253 کیسز زیر التوا ہیں۔

منصفانہ ٹرائلز کے حوالے سے رپورٹ میں 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے الزام میں گرفتار شہریوں کے فوجی ٹرائلز کا ذکر کیا گیا، پرتشدد واقعات سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں