السٹریشن – خدا بخش ابڑو

پاکستان میں جہاں کہیں بھی آپ نظر ڈالیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خوبصرت عورت وہی ہے جسکی رنگت گوری ہو .

یہی عورت ہے جو فروزن مرغی کو فروخت کرنے کے لئے اشتہارات اور بل بورڈ سے جھانک کر مسکراتی ہے یا پھر ہمیں اینٹی سیپٹک صابن خریدنے کا مشورہ دیتی ہے- یہ گوری رنگت والی عورت ہی ہے جس سے پاکستانی مرد شادی کرنا چاہتا ہے- ہر پاکستانی عورت گوری نظر آنا چاہتی ہے- خیالی دنیا ہو یا داستانوں کی دنیا، ہر جگہ یہی عورت چھائی ہوئی ہے-

ہم یقیں کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی پریوں کی داستان میں ضروری ہے کہ کہانی کی ہیروین برف جیسی سفید رنگت والی ہو- گورا ہونے کی خواہش محض سوچ تک محدود نہیں ہے- کیونکہ جہاں خواہش ہو وہاں تجارت کی دنیا کے دروازے  بھی کھل جاتے ہیں.

رنگت گورا کرنے والی صنعت، جو عورتوں کی گورے ہونے کی خواہش سے جڑی ہوئی  ہے، حالیہ برسوں میں 'فیئر اینڈ لولی' جیسی معمولی کریم سے آگے بڑھ کر اب زیادہ طاقتور عروق، کریموں اور علاج معالجوں تک پھیل چکی ہے جسے اپنے زہریلے اثرات کے باعث مشکوک سمجھا جانا چاہئے- لیکن ملک بھر سے ان کے خریدار، خواہ وہ کسی جھونپڑی میں رہنے والی لڑکی ہو یا کوئی بیگم، قیمت دینے کے لئے بخوشی تیار ہیں، بس شرط یہ ہے کہ ' کام ' ہو جاۓ.

وہ کسی کونے کا بیوٹی پارلر ہو یا اعلیٰ درجہ کا اسپا، نقصانات ہر جگہ ہو رہے ہیں لیکن کوئی ان کا ذکر نہیں کرتا اور خطرات کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے.

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ماہرین کے مطابق جلد سے جلد اور عرصہ دراز تک گورا بنے رہنے کی خواہش میں عورتیں نقصان دہ ترش چھلکوں کے استعمال سے اپنی جلد جلا رہی ہیں بلکہ اسٹروآیڈ کریموں کے استعمال سے ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں.

رنگت کو گورا کرنے کے اور بھی سستے طریقے ہیں مثلا بڑی مقدار میں ایمونیا اور ہایڈروجن پرآ کسایڈ کا استعمال، جن کے اپنے نقصانات بھی کچھ کم نہیں مثلا کھجلی، جلد کا سرخ ہوجانا یا پھوڑے پھنسیوں کا نکل آنا جب کہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس سے چہرے پر" تازگی" آئیگی  اور رنگ "گورا" ہوگا.

یہ تلخ حقیقتیں یقینا ان عورتوں کو فکرمند کر دیتی ہیں جن کے ارادے کمزور ہیں- یعنی جو خوبصورت بننے پر پوری طرح مصر نہیں ------- یعنی گورا ہونا نہیں چاہتیں.

سخت جان گھاس پھوس کی طرح گورا ہونے کے بخار کی جڑیں ہمارے نوآبادیاتی دور کے بعد کی پاکستانی نفسیات میں گہرائی تک سرایت کرگئی ہیں- گوری دلہن اور سفید رنگت والی ماڈل ان معنوں میں ہماری ان خواہشات اور توقعات کا مظہر ہیں جو پوری نہ ہوسکیں، جنھیں ہم صدیوں سے پالتے آئے ہیں.

بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ گوری رنگت کا مطلب ہے آریائی نسل سے تعلق رکھنا، یعنی ان فاتح لشکروں کے اصلی وارث جو ہزاروں سال پہلے آئے  تھے- اسکا ایک مطلب مقامی دراوڑی نسل سے تعلق نہ رکھنا بھی ہے ------- یعنی ان چھوٹے قد کے سیاہ فام لوگوں سے جو بر صغیر میں آباد تھے اور اس کے دریاؤں کے کناروں اور پہاڑوں کے دامن میں صدیوں سے مشقت کرتے آئے تھے.

یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ سیاہ فام لوگ، سب کے سب، سرحد کے اس پار رہتے ہیں اور پاکستانی ہونے کا مطلب ہے سکندر اور آریاؤں کا وارث ہونا .

اگر ہیرو اور ہیروئینوں کو گورا دکھایا جاتا ہے تو بدمعاش ہمیشہ کالا ہوتا ہے- چنانچہ رنگت کی بنیاد پر جو اصول بنا لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو کالا ہے وہ غریب ہے، غلیظ ہے جبکہ جو گورا ہے وہ پاک ہے اور اچھا ہے- پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے اور اسی لئے ہم سب کو "گورا" ہونا چاہئے.

گوری رنگت کو اس طرح ہماری ثقافتی قدروں کی بصری علامت کے طور پر تمغہ امتیاز سے نوازنے کا چلن آج  ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پریشان کن بن چکا ہے.

گزشتہ صدی میں سفید فام نسل کے نظریہ کی تشہیر ہٹلر کی جرمنی کے نازی دور حکومت میں کی گئی تھی، جو زیادہ دور کی بات نہیں- وایمر ریپبلک کی منطق کے مطابق اصلی نسل کا جرمن وہی تھا جس کا قد لمبا، رنگت گوری، بال سنہرے اور آنکھیں نیلی ہوں.

ان ساری علامتوں کا تعلق آریائی نسل سے جوڑا گیا اور ان کی تشہیر ایک طاقتور جرمنی کے امیج کی حیثیت سے کی گئی جو پہلی عالمی جنگ کی تباہیوں کے ملبے سے ابھر رہا تھا.

ہٹلر یوتھ نے جو جمہوریہ کے مسلک کی تبلیغ کرنے والی نوجوانوں کی تنظیم تھی لمبے، گورے، سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے نوجوانوں کو فوج کی فرنٹ لائن  میں رکھا، تاکہ وہ اس جرمنی کی علامت بن جائیں جس کے بارے میں ہٹلر نے دعویٰ کیا تھا کہ جلد ہی دنیا کو فتح کر  لینگے.

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ آریائی نظر آئے کیونکہ اسکا مطلب تھا وہ محفوظ ہے اور اسکا تعلق حکمران نسل سے ہے- انہوں نے کبھی اپنی تعداد کو بڑھانے کے لئے برصغیر کا رخ نہیں کیا.

لیکن پاکستانیوں کو جرمنوں سے سبق سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- سفید رنگت سے خبط کی حد تک ہمارے لگاؤ کے موجودہ المیہ  کا تعلق ہماری موجودہ تاریخ سے ہے .

نہ صرف یہ کہ ہم ایک ایسی تاریخ کے وارث ہیں جس نے نوآبادیاتی نظام کی مزاحمت کی ، نہ صرف یہ کہ ہم ایک طویل تاریخ کے حامل ہیں کہ کس طرح برطانیہ نے --------- سفید فام اور غیر ملکی طاقت نے -------- ہماری سرزمین کو تاخت و تاراج کیا ، ہمارے رسم و رواج کو چھیڑا اور عدالتی نظام میں دخل اندازی کی -ان کے رخصت ہونے کے بعد سے ہم نے بڑی حد تک اپنی قومی شناخت کی تشکیل مغرب سے نفرت کی بنیاد پر کی ہے .

امریکہ کے ساتھ حالیہ بات چیت نے پاکستان کے نوابادیا تی نظام کے بعد کے سایوں کو از سر نو تازہ کردیا ہے ؛ پہلے کی طرح ہماری سڑکیں غیرملکی فوجوں کو رسد فراہم کرنے کے لئے استعمال ہو رہی ہیں ، سرحدوں کو اس وقت نظرانداز کر دیا جاتا ہے جب وہ سفید فام سپر پاورز کی جیواسترا ٹیجی فکر کی راہ میں حائل ہوتی ہے .

لیکن اس سارے عمل کے باوجود جو ہم سے فایدہ اٹھانے کے لئے بیشتر سفید فام ممالک کی جانب سے کئے جا رہے ہیں ، سفید رنگت کے ساتھ پاکستانیوں کی محبت کا بخار کم نہیں ہوا ہے - اس تضاد کے اسباب ------- یعنی سفید رنگت والی قوموں سے ہماری نفرت کے ساتھ ساتھ ان جیسا نظر آنے کی ہماری تابڑ توڑ کوششیں --------- اس کے بارے میں محض قیاس آرائی  ہی کی جاسکتی ہے .

غالبا نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے بہت سے افریقی ممالک کے مصنفین کی سونچ جنھیں ایسے ہی مسئلے کا سامنا ہے یہی ہے . یعنی اس جیسی قوم کا روپ دھارلینا جنہوں نے کبھی ہمیں اپنا غلام بنایا تھا ، پاکستان کے اس کلچر کی باقیات ہے جو اس خیال سے نکل نہیں پائی ہے کہ طاقتور بننے کے لئے ضروری کہ ہم بھی ان جیسے بن جاییں .

پاکستانی مرد کو گوری رنگت والی دلہن کی تلاش ہے - پاکستانی بچے اور بچیاں بھی گوری شہزادیوں اور گورے شہزادوں کے خواب دیکھتے ہیں وہ اپنے سانولے رنگ کو دیکھ کر تلملا جاتے ہیں اور پھر سے اس وہم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ خوبصورت اور طاقتور نظر آنے کے لئے گورا ہونا ضروری ہے .

گورا ہونے کے اس خبط کے پیچھے خود سے نفرت کا زہرآگیں خیال کارفرما ہے --------حقیقت اور تاریخ دونوں  ہی کا ایک مڑا تڑا تصور موجود ہے بلکہ اس سے بھی بدتر تو محکومیت کے تسلسل کا احساس جس کے نتیجے میں ہم نوآباد یاتی نظام کا شکار ہوۓ .

جب پاکستانی لڑکیاں اپنی جلد کی رنگت کو کاٹتی ہیں (بلیچ کرتی ہیں) ، اپنے چہرے پر اسٹروآید اور ایسڈ ملتی ہیں تاکہ اپنی کالی رنگت کو کھرچ کر گورا بنایں جسے وہ پاکیزگی اور خوبصورتی کے مترادف سمجھتی ہیں ، تو ایک بار پھر وہ ایک ایسی قوم کی علامت بن جاتی ہیں جسے نہ تو اپنے آغاز کا علم ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل کا - ان کریموں ، چھلکوں اور مرہموں کے بغیر ان کی جلد ہمیشہ سیاہ یا گندمی نظر آئیگی - وہ متواتر چاہے جانے اور پسند کئے جانے کی بھیک مانگیں گی اور بار بار مایوس ہو تی رہینگی -


مصنف ایک اٹارنی ہیں اور پولیٹیکل فلسفہ اور آئینی قانون پڑھاتی ہیں

انگریزی سے اُردو ترجمہ:  سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں