فائل فوٹو  --.
فائل فوٹو --.

پاکستان کے ساتھ کسی تنازعے میں تیسرے فریق کے ذریعے کسی بھی قسم کی مصالحانہ کوششوں پر ہندوستان شملہ معاہدے کا حوالہ پیش کرتا ہے۔

اسلام آباد نے کشمیر میں کنٹرول لائن کے دونوں طرف حالیہ تصادم کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کرانے کی تجویز پیش کی تھی، جسے مسترد کرنے کو اسی آڑ کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن ہندوستان اور پاکستان کے لیے، اقوامِ متحدہ کے مبصر فوجی گروپ کو سن اُنیّس سو بہتّر کے اس معاہدے کی آڑ لے کر، اگر روکنے کی کوشش کی گئی تو پھر تکنیکی طور پر ہندوستان کا موقف زیادہ مضبوط ثابت نہیں ہوگا۔

شملہ معاہدے کی شق دو میں تنازعات کے حل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 'اپنے تنازعات کے پُرامن حل کر لیے دو طرفہ مذاکرات یا پھر کوئی بھی ایسی پُرامن راہ نکالی جائے گی، جس پر دونوں کا اتفاق ہو۔'

معاہدے کی اس شق سے ہی ہندوستان کو وہ اختیار حاصل ہوا، جس کی بنا پر وہ کشمیر جیسے بنیادی معاملے پر دوست ممالک کی مصالحانہ پیشکشوں کو مسترد کرتا چلا آرہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کا کردار نہ تو سیاسی ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسا اختیار ہے کہ جس سے وہ ہندوستان اور پاکستان کو کشمیر پر موجود تنازع حل کرنے کا کہہ سکیں۔

اس کا کردار، جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے، صرف مبصر کے طور پر ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ 'سترہ دسمبر، سن اآنیّس سو بہتّر کو ہونے والی جنگ بندی اور اس پر عمل درآمد کے لیے پیش رفت  پر کڑی نظر رکھے۔'

کنٹرول لائن پر ہونے والے حالیہ تصادم میں پاکستان اور ہندوستان، دونوں ملکوں کے فوجیوں کی جانیں گئی ہیں۔

دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے پر کشیدگی کا الزام لگارہے ہیں بلکہ ہندوستانی حکام اور میڈیا یہاں تک الزام لگارہے ہیں کہ پاکستان نے ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی ہے۔ پاکستان نے یہ الزام مسترد کردیا ہے۔

شکر ہے کہ دونوں حکومتوں نے اب فیصلہ کرلیا کہ معاملے کو مزید آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح طور پرکہا ہے کہ امن مذاکرات کے عمل کو تصادم کے سبب پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے۔

بلاشبہ یہ درست سوچ ہے۔  تھمپو میں جس رویے کا مظاہرہ ہوا تھا، اُسی روح کے ساتھ پیش رفت کی ضرورت ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ کنٹرول لائن پر جس طرح کی صورتِ حال پیش آئی ہے، آئندہ اس سے بچا جاسکے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کنٹرول پر پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بارے میں حقائق کا پتا ہی نہ چلایا جائے۔

اگر ہندوستان اور پاکستان، دونوں مشترکہ تعاون اور غیر جانبداری کے ذریعے اس معاملے پر سچ کو سامنے نہیں لاسکے تو پھر اس کے بعد، اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر مشن کے علاوہ ایسا کرنے کا اور کوئی دوسرا بہتر فورم نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں