کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا احتجاج ۔ اے ایف پی فوٹو۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا احتجاج ۔ اے ایف پی فوٹو۔

16 فروری بروز ہفتہ ایک بار پھر کوئٹہ کو پاک صاف کرنے کی خاطر اسے ہزارہ قوم کے خون سے غسل دیا گیا۔

اس سے محض کچھ ہی ہفتہ پہلے یعنی 10 جنوری 2013 کو جب دنیا نئے سال کا جشن منارہی تھی کوئٹہ کے علمدار روڑ پر ہزارہ قوم کے درجنوں افراد کو خون میں نہلا کر انہیں نئے سال کا تحفہ دیا گیا تھا۔ تب بہت سے لوگوں نے پہلی بار سی فور نامی کسی دھماکہ خیز مواد کے بارے میں سنا۔

تقریباََ سو کلو کے اس ہلاکت خیز مواد نے جو تباہی پھیلائی اس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت نوے سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ایک درجن سے زیادہ لوگ ایسے تھے کہ جن کا نام و نشان بھی نہ مل سکا۔

ہزارہ قوم کے پرامن احتجاج اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان میں رئیسانی حکومت کا خاتمہ کرکے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ اس اقدام سے اگرچہ مقتولوں کے لواحقین اور ہزارہ قوم کے زخموں پر بظاہر کچھ مرہم رکھنے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن حکومت انہیں مکمل طور پر مطمئن ہر گز نہ کرسکی۔

حکومت کے بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ لیکن عوام کو گورنر راج سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں۔ ایف سی اس سے قبل بھی کوئٹہ میں تعینات تھی اور اسے پولیس کے مکمل اختیارات بھی حاصل تھے لیکن اسکے باوجود کوئٹہ میں قتل عام جاری رہا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گورنر راج کے بعد مٹھی بھر دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کرکے انہیں گرفتار کیا جاتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ کچھ لوگوں کو اس بات کی شکایت رہی کہ گورنر راج اور فرقہ وارانہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی آڑ میں بلوچ قوم پرستوں کے خلاف شکنجہ تنگ کیا جا رہا ہے۔

کوئٹہ کے عوام بالخصوص ہزارہ قوم کے افراد ایسی کسی خبر کے منتظر ہی رہے جو ان کے اطمینان کا باعث بنتی۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے واقعے کے صرف ایک ہی مہینے کے بعدایک اور ہزارہ نشین علاقے یعنی ہزارہ ٹاون میں پہلے سے بھی بڑا سانحہ رونما ہوگیا۔

یہ بات تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا تھاکہ دہشت گرد ایک ایسی صوبائی اسمبلی کی برطرفی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے جس کے بعض ارکان پر یہ الزام ہو کہ وہ ان دہشت گردوں کی نہ صرف پشت پناہی کرتے تھے بلکہ انہیں بھرپور تحفظ بھی فراہم کرتے تھے، یہ بات یقینی تھی کہ یہ دہشت گرد گورنر راج کو چیلنج کرنے کی بھرپورکوشش کریں گے اورایسا ہی ہوا اور ایک بار پھر کوئٹہ کو معصوم اور بے گناہ ہزارہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کے خون سے نہلادیا گیا۔

 یہاں جو بات عام لوگوں کے لئے بھی تعجب کا باعث تھی وہ یہ کہ ایک ہزار کلو یعنی ایک ٹن انتہائی مہلک اور جدید بارودی مواد کیسے حادثے کی جگہ تک پہنچا؟

کوئٹہ کے رہنے والے اس بات کا آئے روز مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ جگہ جگہ کھڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار عام آدمی کی کس طرح تفصیلی جامہ تلاشی لیتے ہیں اور ان کی کیا درگت بناتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ اپنی حفاظت کی خاطر کوئی چھوٹا موٹا قانونی اسلحہ بھی پاس رکھتے ہیں ان کے ساتھ بھی انتہائی درشت رویہ روا رکھا جاتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی اتنی بڑی مقدار میں اتنا مہلک مواد لیکر بغیر کسی رکاوٹ کے آ سانی سے اپنے ہدف تک پہنچ سکے؟

ایسے میں ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ شاید قانوں نافذ کرنے والے اداروں میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ان دہشت گردوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کوئٹہ اور اطراف میں ہزارہ قوم کے خلاف دہشت گردی کے جتنے واقعات ہوئے ان میں ایک بات واضح طور پر نوٹ کی گئی کہ قاتلوں کا تعاقب کرنے کی کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی۔

اکثر واقعات ایسے مقامات پر رونما ہوئے جہاں نزدیک ہی ایف سی یا پولیس کی چیک پوسٹ موجود تھی یا بعض اوقات تو دو چیک پوسٹوں کے درمیان کئی ایسے خونریز واقعات ہوئے جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

لوگ آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ جب ستمبر 2011 میں سابق وزیر اعلیٰ کے آبائی علا قے مستونگ میں زائرین کو بسوں سے آتار کر، اُنہیں ایک قطار میں کھڑا کرکے اور شناخت کر کرکے مارا جارہا تھا تواس دوران تقریباََ آدھے گھنٹے تک اس بین الاقوامی شاہراہ پردونوں اطراف کی ٹریفک کو کس نے روکے رکھا تھا؟

لوگ آج تک اس سوال کا بھی جواب ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں کہ جب کچھ سال قبل بلوچستان کے ایک طاقتور وزیر کے گھر پر ایک مبینہ خود کش دھماکہ ہوا تھا تو اس کے پیچھے اصل کہانی کیا تھی؟ اس پر کیا تحقیقات ہوئیں اوراس کا کسی نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟

یہ وہ سارے سوالات ہیں جن کے جوابات اگر مل سکیں تو شاید کوئٹہ میں ہزارہ قوم کی نسل کشی کی گتھی سلجھانے میں تھوڑی مدد مل سکے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اب بھی کچھ ایسے لوگ اور حلقے موجود ہیں جو ہزارہ قوم کی دلجوئی یا ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مسلسل نمک پاشی میں مصروف ہیں۔

پیپلز پارٹی کے ایک رہنما آیت اللہ "درّانی" جو کبھی اپنے آپ کو "تورانی" کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا فرمان ہے کہ ہزارہ خود ہی ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں تاکہ اس بہانے آسٹریلیا میں پناہ حاصل کرسکیں۔ جب کہ بعض حلقے ایسے بھی ہیں جن کی کوشش ہے کہ ہزارہ نسل کشی کا الزام بلوچ قوم پرستوں کے سر تھونپ کے اصل قاتلوں کو تحفظ فراہم کریں۔

ہزارہ قوم اور بلوچستان کے تمام امن پسند حلقے ایک عرصے سے اس بات کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ فرقہ وارانہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے، ان کے مراکز کا خاتمہ کیا جائے اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کیا جائے۔ لیکن ان کے مطالبات پر کبھی کسی نے کان نہیں دھرا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے قتل عام میں تیزی آگئی اور جنس اور عمر کی پرواہ کئے بغیر ان کا خون بہایا جانے لگا۔

جنوری کے واقعے کے بعد مقتولوں کے لواحقین اور ہزارہ قوم نے جس پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے جس کو دیکھتے ہوئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ سراپا احتجاج بن گئے لیکن سب نے دیکھا کہ ان دہشت گردوں پہ ہاتھ ڈالنے  کی کوئی سنجیدہ کوشش پھر بھی نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ 16 فروری کے سانحے کی صورت میں سامنے آیا.

اب جبکہ حکومت نے بظاہر کچھ دلچسپی دکھاتے ہوئے ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا ہے تب بھی ذہنوں میں وہی خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ کیا ریاستی ادارے اس مرتبہ اپنے کام میں واقعی سنجیدہ ہیں یا ایک بار پھر ہزارہ قوم کومحض لوری دینے کی کوشش ہو رہی ہے؟

کیا ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا جائے گا یا ایک بار پھر ان کو فرار ہونے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے؟ اگر ہمارے ادارے اپنے کام میں واقعی مخلص ہیں تو پھر مجھے ایک سوال کرنے کی اجازت دیجئے کہ کیا یہ کام پہلے انجام نہیں دیا جاسکتا تھا؟

کیا اس کے لئے سینکڑوں معصوموں کی قربانی لازمی تھی؟ کیا ان قاتلوں کے خلاف کوئی ایکشن کرنے کے لئے عورتوں اور معصوم بچوں کی کٹی پھٹی اور سوختہ لاشوں کا انتظار کیا جا رہا تھا؟ کیا اب ہمارے بچے بلا کسی خوف اسکول جا سکیں گے؟ کیا ہماری مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے وقت اس بات کی توقع کر سکیں گی کہ جن کو وہ پال پوس کے بڑا کر رہی ہیں کسی دن ان کے جسم کے ٹکڑوں کو کسی شاپر میں جمع کرنے کی نوبت نہیں آئے گی؟

اسی طرح اگر جان کی امان پاؤں تو یہ بھی عرض کروں کہ سپریم کورٹ بھی تواپنا سو موٹو نوٹس پہلے کبھی لےسکتا تھا لیکن کیا کریں کہ ہم فریاد ہی کرسکتے ہیں اور شاید صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ؛

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو...

تبصرے (1) بند ہیں

Der Lagi Anay Mai….. | Changezi.net Aug 02, 2013 08:16pm
[…]                  دیر لگی آنے میں تم          شکر ہے پھر بھی آئے […]