دہشتگرد کو ‘شہید’ نہ سمجھیں
چنگیز خاں شہید، ہلاکو شہید ہے آیا جو اس زمین پہ ڈاکو شہید ہے– حبیب جالب
جماعت اسلامی کبھی بھی تاریخ کی غلط جانب کھڑے ہونے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی- اپنے آغاز سے آج تک، یہ جن لوگوں کی خدمات کا دعویٰ کرتی ہے انہی کے مفادات کے خلاف کام کرتی آئی ہے-
روایت برقرار رکھتے ہوئے پاکستانی جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن نے تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کو ‘شہید’ قرار دے ڈالا- محسود، شمالی وزیرستان میں مبینہ طور پر ایک ڈرون سےفائر کیے گۓ میزائل سے مارے گۓ تھے- پاک فوج نے جناب منور حسن کے اس بیان پر برہمی کا اظہار کیا اور اسے ان ہزاروں فوجیوں کی تحقیر قرار دیا جنہوں نے اپنی جانیں شدّت پسندوں کے خلاف جنگ میں قربان کر دین-
جماعت اسلامی کی تاریخ کے غلط رخ پر ہونے کی کہانی بہت پرانی ہے اس کا آغاز سنہ انیس سو سینتالیس سے ہوا جب اس تنظیم نے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ملک کی مخالفت کی-
انیس سو اکہتر میں اس نے بنگلہ دیش کی عوامی بغاوت کے خلاف ملٹری کا ساتھ دیا- انیس سو پچاسی میں یہ ایک اور ملٹری ڈکٹیٹر، جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہو گۓ، اور جمہوریت کی تباہی اور افغانستان میں سوویت مخالف جنگ کی آگ میں جھونکنے کے لئے شدّت پسند نوجوانوں کی تیاری میں ان کی مدد کی-
آج، جماعت اسلامی ان عسکریت پسندوں کے ساتھ ہے جنہوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سول سوسائٹی کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے- اپنے تنظیمی ڈھانچے کے باوجود، یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر جماعت پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے راۓ دہندگان کے دلوں کو جیتنے میں ناکام رہی ہے-
بنگلہ دیش کی خانہ جنگی میں سینکڑوں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں- سنہ دو ہزار آٹھ میں، بی ایم جے میں، شائع ہونے والی ایک اسٹڈی کے مطابق اندازاً دو لاکھ چھیانوے ہزاراموات ہوئی تھیں- جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف فوجی مہم میں شامل ہونے والی ملیشیا کے لئے رنگروٹ فراہم کیے-
انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بنگلہ دیش نے جماعت اسلامی کو کالعدم کر دیا- بنگلہ دیش میں جماعت کی قیادت پاکستان بھاگ آئی- حال ہی میں، اگست سنہ دو ہزار تیرہ میں بنگلادیشی سپریم کورٹ نے جماعت کی رجسٹریشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوۓ اس پر مستقبل میں انتخابات میں حصّہ لینے پر پابندی عائد کر دی ہے-
یہ بات قابل حیرت ہے کہ پاکستان آرمی، جماعت کے خلاف موقف اختیار کر رہی ہے، جس نے ہمیشہ تب پاک فوج کی حمایت کی جب اس نے آئین یا جمہوری عمل کو معطل کیا- تاہم، عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھتے ہوۓ فوج اس بات پر مجبور ہو گئی کہ وہ اس مسئله پر جماعت سے اختلاف کرے جس نے طالبان کے سابقہ سربراہ کو شہید قرار دیا ہے-
مسلح افواج کے نمائندے نے کہا:
“پاکستان کی عوام، جن کے پیاروں نے دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں گنواں دیں، اور مسلح افواج کے شہداء کے خاندانوں کا ان کے جذبات مجروح کرنے پر سید منور حسن سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ ہے- اور یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی اس موضوع پر اپنی پارٹی پوزیشن کی وضاحت کرے-”
جماعت کے پاس یہ موقع تھا کہ منور حسن پر الزام عائد کر کے خود کسی قسم کی ذمہ داری سے بری الزمہ ہو جاۓ- لیکن، جماعت نے، جو کہ کئی دہائیوں سے ریاست اور آئین کے ساتھ متصادم رہی ہے، ایک بار پھر بجاۓ تعاون کی بجاۓ تصادم کا ہی راستہ چنا-
جماعت کے نمائندے، جناب فرید پراچہ نے اس امکان کو مسترد کر دیا کہ پارٹی منور حسن کے بیان سے قطع تعلق کرتی ہے- اسکی بجاۓ، پراچہ صاحب کا یہ کہنا تھا کہ منور حسن کا بیان جماعت کے خیالات کا عکس ہے-
جماعت نے ہمیشہ پاکستان میں بگاڑنے کا کام کیا ہے- یہ جانتے ہوۓ بھی کہ ووٹروں نے ہر الیکشن میں جماعت کو مسترد کیا ہے یہ اپنی انتخابی مہم میں جھوٹے وعدے کرتی ہے، یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اس سے کبھی اپنے وعدے پورے کرنے کو نہیں کہا جاۓ گا- تاہم، ایسے وعدے دیگر سیاسی تنظیموں کے لئے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں جنہیں اپنے ووٹروں کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ وہ تنخواہیں دگنی کر دینے کا وعدہ کیوں نہیں کر سکتے، جب کہ جماعت ایسے وعدے ہمیشہ فوراً کر لیتی ہے-
اس بار، جماعت نے ملک کا سیاسی مزاج سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کی ہے- شدّت پسندوں کے ہاتھوں پاکستان میں ہزاروں اموات کے بعد، ایک عام پاکستان کسی طور طالبان کو ایک اثاثے کی نظر سے نہیں دیکھتا- حتیٰ کہ فوج بھی ان شدّت پسندوں سے اجتناب کر رہی ہے جو مسلسل مسلح افواج پر حملے کر رہے ہیں-
یہ واضح نہیں کہ آیا جماعت اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے گی اور ان پاکستانیوں سے معافی مانگے گی جن کے پیارے شدّت پسندوں کے ہاتھوں مارے گۓ-
حکیم اللہ، عسکریت پسندوں کا سربراہ تھا جس نے ریاست سے بغاوت کی اور معصوم شہریوں کے قتل کو منظور کیا- وہ ایک جنگی مجرم تھا، شہید نہیں- اور اگر اب بھی جماعت کو کوئی فرق نہیں نظر آتا تو آج وہ جس سیاسی کشمکش کا شکار ہے، یہی اس کا مقدر ہے-
ترجمہ: ناہید اسرار
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
