پاکستانی نوجوان اور سیاست ٢
یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں
بھٹو صاحب کے اقتدار کی طوالت کے دوران ترقی پسند طلبہ اور انکے درمیان فاصلے بڑھنے لگے۔ سن 1974 میں احمدیوں کو اقلیت قرار دلانے کے لیے شروع ہونے والی تحریک کی قیادت جمیعت نے کی اور رفتہ رفتہ سرکاری حلقوں میں بھی جمیعت نے اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔
بھٹو صاحب اپنی اصل طاقت، یعنی طلبہ کی حمایت سے رفتہ رفتہ ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ آخرکار وہ وقت بھی آیا جب بھٹو صاحب کے خلاف شروع کی جانے والی نظام مصطفی تحریک کے دوران بائیں بازو کی طلبہ جماعتوں نے بھٹو صاحب کی بھرپور مخالفت کی۔
1977 میں جمہوری دور کا سورج غروب ہوا تو آمریت کی کالی رات ملک پر چھا گئی۔ ضیاء الحق کے دورِ ظلمت میں طلبہ سیاست کی رہی سہی افادیت بھی خاک میں مل گئی۔
ضیاء کی ایڈوائزری کونسل میں جمیعت کے سابق راہنما خورشید احمد اور جاوید ہاشمی کو شامل کیا گیا۔ ضیاء کی شکل میں جمیعت کو ایک قدرتی حلیف مل گیا، اور اس رشتے کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔
پنجاب میں سوشلسٹ تنظیموں پر قابو پانے کے لیے جمیعت کا استعمال کیا گیا، کراچی میں مہاجر طلبہ تنظیم APMSO کو شہہ دی گئی اور اندرون سندھ میں قوم پرست جماعتوں کی سرپرستی کی گئی۔
تعلیمی اداروں میں تشدد اور قتل وغارت کی روایت جمیعت کے کارکنان نے 1972 اور 1973 میں قائم کر دی تھی، ضیاء دور میں اس رجحان میں مزید اضافہ ہوا۔
رفتہ رفتہ جمعیت کے کارکنوں کی خود اعتمادی اس درجے تک پہنچ گئی کہ 1982 میں ایک ہوائی جہاز سے جمیعت کے ایک ناظم کے بریف کیس سے پستول برآمد ہوا۔ اگلے روز یہ خبر چھاپنے کی پاداش میں جمیعت کے بھپرے ہوئے غنڈوں نے روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کے دفاتر پر حملہ کر دیا اور توڑ پھوڑ کی۔
اسی زمانے میں پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری کا معیار بھی جمیعت نے طے کرنا شروع کر دیا تھا۔ خواتین یونیورسٹی کے مسئلے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے پر ضیاء نے اونٹ کو خیمے سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور 1984 میں طلبہ یونینز پر ہی پابندی عائد کر دی گئی۔
ان حالات میں بھی جمیعت کو یہ اجازت دی گئی کہ جہاں اسکا قبضہ ہے، اسے برقرار رکھا جائے۔ البتہ پنجاب میں جمیعت کے عفریت پر قابو پانے کے لیے فوجی حکومت نے ایم ایس ایف [مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن] کو دوبارہ زندگی دی۔
پنجاب میں جمیعت اور MSF کے بیچ رقابت نے جلد ہی مسلح چپقلش کا رنگ اختیار کر لیا جس میں دونوں جماعتیں اسلحے سے لیس تھیں۔ لہذا جب لاہور انجینرنگ یونیورسٹی پر قبضے کی جنگ شروع ہوئی تو وہ ایک سال تک جاری رہی۔ شکست کھانے پر جمیعت نے یونیورسٹی کے انتظامی بلاک کو آگ لگا دی اور پنجاب اسمبلی تک پر چڑھائی کر ڈالی۔ کراچی یونیورسٹی بھی اسی طرح کئی دفعہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان میدان جنگ بنی رہی۔
پاکستان کی انٹلیجنشیا نے طلبہ یونینز پر پابندی کو اس دور میں بڑھنے والے تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا اور آخرِکار 1988 میں یونینز پر پابندی ختم کر دی گئی۔ اس تبدیلی سے تشدد کے واقعات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ صرف چہرے بدل گئے، کرتوت وہی کے وہی رہے۔ جمیعت کی جگہ ایم ایس ایف (MSF) کے غنڈوں نے لے لی اور سرکاری سرپرستی کے بل بوتے پر پنجاب کے تعلیمی ادارے بدمعاشی کے اڈے بن گئے۔
جولائی 1992 میں سپریم کورٹ نے تعلیمی اداروں میں سیاست پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کے بعد طلبہ سیاست مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی البتہ اس کے زوال کا آغاز ضرور ہوا۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں مختلف جماعتیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن عام طلبہ میں ان جماعتوں کے متعلق اچھا تاثر نہیں پایا جاتا۔
اسی سلسلے کی ایک اور کڑی نجی یا پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا عروج بھی ہے، جہاں سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندی ہے۔ وکلاء تحریک اور اسکے بعد عام انتخابات کے دوران طلبہ میں ایک نیا جوش وخروش دیکھنے کو ملا، جس کا تعلق مقامی طلبہ سیاست سے نہیں بلکہ ملکی حالات سے ہے۔
طلبہ سیاست کا بہرحال اس ملک کی تاریخ میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ حالیہ دو ر کے بہت سے قدآور سیاستدانوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغا ز طالب علمی کے دور میں کیا۔ اس طویل فہرست میں اسفند یار ولی، عبدالمالک بلوچ، افراسیاب خٹک، الطاف حسین، حسین نقی، منور حسن، جاوید ہاشمی، قمر زمان کائرہ، احسن اقبال اور جہانگیر بدر کے نام نمایاں ہیں۔
نوجوانوں کے موجودہ سیاسی کردار پر کچھ عرصے سے کافی بحث جاری ہے۔ اس سلسلے میں برٹش کونسل نے دو رپورٹیں جاری کی ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں واقع جناح انسٹی ٹیوٹ نے بھی پاکستانی نوجوانوں کے سیاسی کردار پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شرکت بڑھانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
رپورٹ میں نوجوانوں کی سیاسی کارکردگی کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے اور اس ضمن میں طلبہ یونینز کے کردار پر بھی نظر ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ سفارش پیش کی گئی ہے کہ نوجوانوں کو مستقبل میں سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔
اسی موضوع پر مزید بحث پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر چھڑ گئی اور طلبہ سیاست پر مختلف افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کچھ افراد نے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا کیونکہ پابندی کے باوجود سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر ان سرگرمیوں کے غیر قانونی ہونے کی وجہ سے طلبہ اپنے حقوق کا دفاع نہیں کر سکتے۔
پابندی برقرار رکھنے اور اس کو سختی سے عملدرآمد کروانے کے حامیوں کے مطابق سیاسی سرگرمیوں کی بدولت تعلیمی اداروں میں طلبہ جماعتوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے اور ان کی سیاسی سرگرمیاں تعلیم کے حصول میں حارج ہوتی ہیں۔
صحافی ضرار کھوڑو کے مطابق ایک غیر سیاسی طلبہ یونین اس مسئلے کا حل ہو سکتی ہے لیکن پاکستان میں فی الحال ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ طلبہ سیاست پر پابندی سے تعلیمی معیار پر کیا فرق پڑا ہے اور کیا مکمل طور پر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی قابل عمل ہے۔
دانشور اور کالم نگار وجاہت مسعود صاحب کے مطابق طلبہ یونینز کی عدم موجودگی کا سب سے زیادہ فائدہ جمیعت اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں نے اٹھایا، اسی لیے طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ کبھی ان کی جانب سے سننے کو نہیں ملا۔
یہ بحث گرچہ بہت طویل ہے لیکن اشد ضروری ہے اور قانون ساز وں کو ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے طلبہ کو سیاسی نظام سے روشناس کروانا ایک اہم ذمہ داری ہے اور اسی میں ملک کا مفاد پنہاں ہے۔
جاری ہے...
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
