منڈیلا کا جادو
۔ وہ تمام لوگ جو نیلسن منڈیلا کی خوبیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں وہ ان خصوصیات کی بات کرتے ہیں جو ان کی نظر میں قابل تعریف ہونی چاہئیں، لہٰذا وہ مختلف موقعوں کے حوالے سےان کا ذکر کرتے ہیں- لیکن وہ اپنی ان تمام خوبیوں اور کارناموں سے زیادہ عظیم شخصیت تھے-
ان کی زندگی کا کوئی تذکرہ ان کی ستائیس سالہ قید، رہائی اور جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر کے طور پر ان کی تقرری کے ذکر کے بغیر نامکمل ہوگا- لیکن ان کی زندگی ایسے نمایاں کارناموں سے بھری ہوئی ہے جس کا مطالعہ سیاست اور سماجی تبدیلیوں کے ایک طالب علم کے لئے بے حد مفید ہوگا-
جب 46 سالہ منڈیلا نے 1964 میں عدالت میں کہا کہ "ان کا ایک آزاد اور جمہوری معاشرہ کا تصور وہ ہے جس میں تمام لوگوں کو میل جول اور برابری کے مواقع حاصل ہوں" ایک ایسا نصب العین جس کے عوض انھیں موت بھی منظور تھی، انہوں نے اپنے نصب العین کا ذکر کیا تھا، اس کے حصول کے طریقے کا نہیں- کیونکہ ان کے نقطۂ نظر میں تبدیلی آرہی تھی، ایک سخت گیر طاقت کے استعمال کے حامی شخص سے بدل کرایک امن کے پیامبرکے طور پر-
منڈیلا کی زندگی کے ان سالوں کو یاد کرنا ایک اچھی بات ہے جب وہ ایک جنگجو انقلابی تھے یا ایک "دہشت گرد" جیسا کہ انہیں مسز تھیچر اور ان کے قبیل کے چند دوسرے لوگ کہتے تھے-
افریقی نیشنل کانگریس (ANC)، منڈیلا کی سیاسی درسگاہ کا طریقۂ کار دراصل عدم تشدد تھا- منڈیلا کی دلیل یہ ہے کہ عدم تشدد کی طویل جدوجہد کی ناکامی کے بعد طریقۂ کار میں تبدیلی ضروری تھی-
1961 میں، انہوں نے، اے این سی سے علیحدہ، اوم کھونٹو نام کی ایک تنظیم تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے کیلئے قائم کی- طریقۂ کارمیں اس تبدیلی کا عزم پرتشدد جدوجہد کی ایک غیرمعمولی دستاویز ہے، یہ ایک ایسا تصور ہے جو حالیہ سالوں میں پوری طرح سے بدنام کیا گیا ہے- تخریب کاری کا نشانہ حکومتی تنصیبات تھیں لیکن انسانی جان کو کوئی خطرہ نہیں تھا- تخریب کاری کی کچھ کارروائیاں کی بھی گئیں تھیں-
بعد میں، منڈیلا نے اپنی فوجی مہموں کے لئے حمایت حاصل کرنے کیلئے کئی افریقی ملکوں کا دورہ کیا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ الجیریا کی گوریلا جنگ کے آزمودہ فوجیوں سے تربیت بھی حاصل کی-
منڈیلا کی عدم تشدد کے ذریعہ جدوجہد کی جانب واپسی کیسے ہوئی اور وہ امن، برداشت اور مصالحت کے پیامبر کیونکر بنے؟ آزادی کی سمت اپنے طویل سفرکا تفصیلی ذکر انہوں نے خود کیا ہے لیکن شائد ان کے نقطۂ نظر میں تبدیلی کی اصل وجہ وہ بین الاقوامی رائے عامہ کی طاقت تھی جو افریقی نوجوانوں کے حق میں ہوگئی تھی-
ایک طرف تو دنیا کی اہم طاقتیں جنوبی افریقہ کی نسلی عصبیت کی حکومت کے خلاف تیسری دنیا کے پابندی لگانے کے مطالبات کی مزاحمت کررہی تھیں، سوائے کھیلوں کی دنیا سے اس کے نکالے جانے کے، دوسری طرف دنیا بھر میں رابن آئی لینڈ کے قیدی کی حمایت میں مظاہروں نے نسلی سخت گیروں کی کمر توڑ دی-
ایک نئے سیاسی عقیدے کو اختیار کرنے کے عمل سے منڈیلا کی ہمہ گیر تربیت کا آغاز ہوا- انہوں نے رابن آئی لینڈ کی بنجر زمین کو دیکھا تو اس پر اپنی سرزمین اور اس کے پھول پودوں سے محبت اور اسکے لوک گیتوں کی خوبصورتی کا نئے سرے سے احساس ہوا- کوئی بیان جاری کرنے سے پہلے انھوں نے اپنے خیالات کی رو کو صحیح رخ دینے کی کوشش کی اور بہت زیادہ جذباتی خطابت کی جگہ قائل کرنےوالے بیانات نے لے لی-
انہوں نے اپنے ساتھیوں کی حمایت کو وقعت دینا سیکھا، صدموں اور بے وفائی کو باوقار طریقے سے برتا-
ان میں سختیوں کو سہنے کی بڑی صلاحیت تھی، یہاں تک کہ سخت چٹانوں کو توڑ کر پتھر بنانے کی اور اپنی تحریروں کو چھپانے کے اذیت ناک تجربے سے بھی گزرے- اس صلاحیت نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ جزوی آزادی سے انکار کرکے اس بات کا انتظارکرنے کے لئے تیار تھے جب نسلی عصبیت والی حکومت کے پاس مکمل طور پر ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہے-
اس کے علاوہ انہوں نے معاف کردینے اور عدل و انصاف سے کام لینے کے اصول کو اپنایا؛ جب انہوں نے ایک نوجوان وارڈر کو ایک قیدی کے ساتھ نرمی کرنے پر سزا بھگتنے کیلئے تیار دیکھا تو یہ بے حد اذیت ناک تجربہ تھا- (بعد میں انہوں نے جیل میں اپنے اذیت دینے والوں کوچائے کی دعوت دیکر مفاہمت کے اعلیٰ ترین جذبات کا اظہار کیا)
انہوں نے ظلم و ستم کا مقابلہ پر امن طریقے سے کرکے جو مقام حاصل کرلیا تھا اس نے انہیں اس قابل بنا دیا کہ قید سے چھوٹنے کے بعد ایک جمہوری جنوبی افریقہ کی بنیادیں ڈال سکیں- انہوں نے نئی حکمت عملیاں بنائیں یعنی سچائی اورمصالحت کمیشن (Truth and Reconciliation Commission) یعنی جنوبی افریقہ کی سیاہ فام آبادی کو متحد کرنا اور انہیں سفید فام لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ کرنے کا کام- اور اس طرح ایک ناگزیر خانہ جنگی کو شروع ہونے سے روکنے کا کام- صدارت کے عہدے سے مقررہ مدت کے بعد دست بردار ہوکر انہوں نے اقتدار کے لالچ سے آزادی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی-
ان چند سالوں میں وہ اپنے ملک کے سیاہ فام افریقیوں، بلکہ پوری دنیا میں برابری اور اپنی صلاحیتوں پر فخر کے احساس کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے، وہ احساس جو ہزاروں سال سے ان کے اندر سویا ہوا تھا- یقیناً، ان سے پہلے بھی کئی لوگوں نے یہ سب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن افریقی قوم کو ایک نئی شناخت دینے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے- ایک ایسا کارنامہ جو پوری تاریخ میں بے مثال ہے-
منڈیلا کی عظمت اور ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے کافی مبصرین نے انہیں اپنے ایک لائق جانشین کو تیار کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو ان کے بعد ان جیسی فراست، سادگی اور راست بازی کا مالک ہوتا- لیکن منڈیلا جیل میں ایسا شخص کہاں سے لاتے؟
ایک طرف تو ان کا قد کاٹھ بڑھ رہا تھا تو دوسری طرف ان کی پارٹی سخت مشکلات کا شکار ہو رہی تھی - وہ ایک ایسے جنرل تھے جن کے صرف چند ساتھی تھے لیکن کہنے کو بھی فوج نہیں تھی- اب جب کہ وہ نہیں رہے، ان کی قوم نئے رہنماؤں کی ضرورت محسوس کررہی ہوگی، ایماندار اور ایسے قابل لیڈر جو قوم کو موجودہ بے یقینی کے حالات میں راستہ دکھائیں-
منڈیلا پر اس بات پر بھی تنقید ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی کامیابی کے بعد ایک سیاسی اور سماجی انقلاب لانے میں بھی ناکام ہوگئے، خصوصاً سفید فام لوگوں کے ساتھ ایک ایسا سمجھوتہ کرکے جس میں وہ اپنی دولت سے عیاشی بھی کریں اور اس میں اضافہ بھی کریں-
سوال یہ ہے کہ کیا منڈیلا کے پاس ایسے ذرائع تھے جو ایسا انقلاب لانے میں ان کے مددگار ہوتے؟ تعجب خیز طور پر ان کے چند ناقد اس کلیہ سے متفق ہیں کہ سیاست ممکنات کا فن ہے-
ان دونوں سوالوں کے جواب کیلئے انتظار کرنا ہوگا اس وقت تک جب تک کہ یہ پتہ نہ چل جائے کہ تاریخ میں تمام انقلابات صرف تبدیلی کا راستہ کھولتے ہیں جو ہمیشہ نہیں آتی- منڈیلا کے انقلاب پر فیصلہ ہم صرف اس صورت میں دے سکتے ہیں جب، فرانس کے جمہوری انقلاب کا اختتام ایک نودولتیا بادشاہت کی صورت میں، یا صرف سات دہائیوں کے بعد روس کے انقلاب کا خاتمہ اور چین کی حکومت کا سرمایہ دار دنیا سے معاشقہ ہماری سمجھ میں آجائے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
